Question:
Answer:
Sh. Huzaifa-Ul Hoque
22/11/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "رُفِعَ القَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ، وَعَنِ المَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ" (الترمذي)
في بدائع الصنائع: وأما شرائط وجوب كل نوع فكل ما هو شرط انعقاد سبب وجوب هذه الكفارة من اليمين والظهار والإفطار والقتل فهو شرط وجوبها، لأن الشروط كلها شروط العلل عندنا ... وبعد صفحات (ص ٣٩٦) ... ومنها: الحنث في كفارة اليمين، فلا يجوز تكفير اليمين قبل الحنث... (بدائع الصنائع: ج ٦، ص ٣٦٩، وص ٣٩٦، كتاب النذر، كتاب الكفارات، فصل في شروط الوجوب، وفصل في شروط الجواز، ط. دار الكتب العلمية)
في البحر الرائق: (قوله: ولا يكفر قبل الحنث) أي: لا يصح التكفير قبل الحنث في اليمين سواء كان بالمال أو بالصوم، لأن الكفارة لستر الجناية، ولا جناية واليمين ليست بسبب، لأنها مانعة من الحنث غير مغضية إليه (البحر الرائق: ج ٤، ص ٤٤٦، كتاب الأيمان، ط. دار إحياء التراث)
في الاختيار لتعليل المختار: (ولا يجوز التكفير قبل الحنث) لقوله عليه الصلاة والسلام: «من حلف على يمين ورأى غيرها خيرا منها فليأت التي هي خير وليكفر عن يمينه»، وروي: «ثم ليكفره يمينه» أمر وأنه يقتضي الوجوب ولا وجوب قبل الحنث، أو نقول: إذا حنث يجب عليه أن يكفر بالأمر، ولأن الكفارة ساترة والستر يعتمد ذنبا أو جناية، ولم يوجد قبل الحنث لأن الجناية هي الحنث لما يتعلق به من هتك حرمة اسم الله تعالى، واليمين مانعة من ذلك فلا تكون سببا مفضيا إلى الحنث... (الاختيار لتعليل المختار: ج 4، ص 49-48، كتاب الأيمان، ط. دار الكتب العلمية/المكتبة الشاملة)
في المبسوط: ثم طلاق النائم لا يقع ... وبخلاف النائم؛ لأن النوم يمنعه من العمل؛ فلانعدام الإيقاع نقول: إنه لا يقع (المبسوط: ج 6، ص 207-206، كتاب الطلاق، باب الخلع، ط. دار الكتب العلمية)
وفيه أيضا: (قال): وإيلاء النائم والصبي، والمجنون، والمعتوه الذي يهذي باطل بمنزلة طلاق هؤلاء، وهذا لأن اليمين من هؤلاء لا ينعقد فإن قولهم غير معتبر في اللزوم (المبسوط: ج 7، ص 32-31، كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ط. دار الكتب العلمية)
في فتاوى عثمانية: وجوب نذر کے لیے وقوع شرط: الجواب وبالله التوفيق: نذر میں جب کوئی کام شرط کے ساتھ مشروط کیا جائے تو شرط پائے جانے کی صورت میں ناذر پر اس کی ادائیگی واجب ہوگی اور شرط نہ پائے جانے کی صورت میں نذر لازم نہیں ... (فتاوى عثمانية: ج ٩، ص ٦٩، كتاب الأيمان، ط. العصر اكيدمي)
في فتاوى عثمانية: قسم کا کفارہ: اگر کوئی شخص اپنی قسم میں حانث ہو جائے تو اس پر کفارة کی ادائیگی واجب ہے ۔ (فتاوى عثمانية: ج ٩، ص ٨، كتاب الأيمان، ط. العصر اكيدمي)
في آپ کے مسائل: دل ہی دل میں قسم کھانے سے قسم نہیں ہوتی: سوال: میں نے دل میں قسم کھائی تھی اور دل میں وعدہ کیا تھا کہ ایسا نہیں کروں گا، مگر کر لیا تو اب اس پر کفارہ کیا ہے؟
جواب: دل میں عہد کرنے سے نہ قسم ہوئی، نہ کوئی کفارہ لازم آتا ہے، نہ آپ نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے، جب تک کہ قسم کے الفاظ زبان سے ادا نہ کرے۔ اس لئے اس معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، صرف یہ ہوا کہ آپ نے دل میں ایک ارادہ کیا تھا جو پورا نہیں ہوسکا (آپ کے مسائل: ج ٥، ص ٥٤٨، قسم کھانے کے مسائل، کن الفاظ سے قسم نہیں ہوتی، ط. مكتبة لدهيانوى)
وفيه أيضا: خواب میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی: سوال: رات میں گہری نیند سورہاتھا، خواب میں یاد نہیں کہ کس بات پر بیوی کے ساتھ جھگڑ رہا تھا اور جھگڑے کے وقت گھر میں کافی رشتہ دار، میری والدہ صاحبہ اور سسر صاحب بھی موجود تھے، اور میں نے خاص طور پر والدہ اور سسر کو مخاطب کر کے بیوی کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے کہا کہ: "تم لوگ گواہ رہنا، میں اس عورت کو طلاق دیتا ہوں، کیونکہ اس سے مجھے کسی طرح کا سکون نہیں مل رہا ہے" اور اس طرح میں نے تین بار یہ الفاظ دہرائے، تو کیا میرے اس طرح کہنے سے طلاق ہو جائے گی؟
جواب: مطمئن رہئے! خواب کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ وفي الحاشية: طلق النائم فلما انتبه قال لها طلقت في النوم لا يقع وكذا لو قال أجزت ذلك الطلاق .... إلخ. [البحر الرائق: ج ۳، ص، ٢٤٩] (آپ کے مسائل: ج ٦، ص ٦٤٧-٦٤٦، كتاب الطلاق، کن الفاظ سے طلاق ہو جاتی ہے، ط. مكتبة لدهيانوى)