Question:
I am a psychologist. Sometimes, I have clients who are TAC (Transport Accident Commission) - approved. This means that when I do counselling with these clients, I can claim payment for the session directly from the TAC (the client does not pay). Given that TAC is an insurance scheme, will this type of work where I claim payment from an insurance company be permissible?
Jazakumullahu khayran
Wassalam
Answer:
It is permissible for you to receive payment from the Transport Accident Commission (TAC) for the counseling services you provide to the clients. This is because you are merely providing a service and receiving payment for it, without directly engaging in the insurance scheme. *
Sh. Huzaifa-Ul Hoque
10/10/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
في الفتاوى الهندية: مسلم آجر نفسه من مجوسي ليوقد له النار لا بأس به كذا في الخلاصة ... وبعد صفحة ... ولو استأجر الذمي مسلما ليبني له بيعة أو كنيسة جاز ويطيب له الأجر كذا في المحيط (الفتاوى الهندية: ج 7، ص 481-480، كتاب الإجارة، الإجارة على المعاصي، ط. مكتبة رشيدية)
في فتاوى قاضيخان: لو أن مسلما آجر نفسه ليعمل في الكنيسة ويعمرها لا بأس به لأنه لا معصية في عين العمل. (فتاوى قاضيخان: ج ٣، ص ٣٣٠، كتاب الحظر والإباحة، ط. دار الكتب العلمية)
في فتاوى محمودية: مسلمان ڈاکٹر کا بیمہ کارپوریشن کے لئے طبی معائنہ: سوال: کیا کسی مسلمان ڈاکٹر کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بیمہ زندگی کار پوریشن کی جانب سے مقرر ہو کر ان لوگوں کی صحت کی معائنہ کرے جن کا بیمہ ہوتا ہے؟ ڈاکٹر کو ہر معائنہ کے عوض فیس کارپوریشن کی جانب سے دی جاتی ہے، معائنہ کرنے سے پہلے یا بعد ڈاکٹر کو کوئی مطلب نہیں رہتا، وہ تو صرف ان باتوں کی تصدیق یا تشخیص کرتا ہے جس کا اعلان بیمہ کرانے والا اپنی درخواست میں اپنی صحت کے بارے میں کرتا ہے۔ ہندوستان میں بیمہ کارپوریشن حکومت کی جانب سے چلائے جانے والا ایک ادارہ ہے اور ہندوستان میں جمہوری حکومت ہے۔ متذکرہ بالا طور پر ہوئی آمدنی کو ڈاکٹر اپنے کام میں لاسکتا ہے یا نہیں، اگر نہیں تو کس مصرف میں صرف کرنا چاہئیے؟
الجواب حامداً ومصلياً: زندگی کا بیمہ ناجائز ہے، ڈاکٹر معائنہ کرنے کی فیس لیتا ہے وہ جائز ہے، اس کو ہر کام میں خرچ كر سكتا. وفي الحاشية: سئل في رجل به داءً في ظهره، اتفق مع طبيبه على مداواته، وجعل له أجرة، ولم يضرب له مدة ودواء، يريد الطبيب أجرة مثله، وما أنفقه في ثمن الأدوية، فهل له ذلك؟ الجواب: نعم، والمسئلة في الخيرية من الإجارة. [تنقيح الفتاوى الحامدية: ۱۵۱/۲، كتاب الإجارة، للطبيب أجرة مثله، رشيديه] سئل في رجل به داء في أنفه، اتفق مع طبيب على مداواته، وجعل له أجرة، ولم يضرب لذلك مدة، وداواه، فما الحكم؟ أجاب: للطبيب أجرة مثله وما أنفق في ثمن الأدوية، لفساد الإجارة على الوجه المذكور [الفتاوى الخيرية على هامش تنقيح الفتاوى الحامدية: ۱۸۲/۲، کتاب الإجارة رشيديه] (فتاوى محمودية: ج ١٦، ص ٣٩٢-٣٩١، باب الربا، فصل فيما يتعلق بالتأمين على الحياة، ط. إدارة الفاروق)
في فتاوى عثماني: کیا سودی معاملات کرنے کی بناء پر حکومت کی ہر ملازمت نا جائز ہے؟ سوال: میرا ایک دوست کہتا ہے کہ آج کل کی حکومت غیر شرعی ہے، حکومت خود سودی کاروبار کرتی ہے اور سود کی رقم سے ہم کو تنخواہ ملتی ہے، لہذا ہماری تنخواہ بھی حرام ہوئی، شرعاً کیا یہ خیال درست ہے؟
جواب: آپ کے دوست کا خیال علی الاطلاق درست نہیں، حکومت کی ہر ملازمت ناجائز نہیں ہے، اور نہ ہر ملازمت کی تنخواہ حرام ہے، جس ملازمت میں کوئی غیر شرعی کام نہ کرنا پڑتا ہو یا براہ راست حرام آمدنی سے تنخواہ نہ دی جاتی ہو، وہ جائز ہے اور اس کی تنخواہ حلال ہے۔ (فتاوى عثماني: ج ٣، ص ٣٦٣-٣٦٢، كتاب الإجارة، فصل في نفس الإجارة، ط. مكتبة معارف القرآن)
في فتاوى دار العلوم ديوبند: سوال: ہندو لوگ بتوں پر جو چڑھاوا چڑھاتے ہیں اس کا خریدنا برہمن سے درست ہے یا نہیں؟ اگر درست ہے تو کیوں؟ بت تو مالک نہیں ہوتے؟
الجواب: وہ چڑھاوا ملک برہمنوں کی ہوتا ہے، اس لیے ان سے خریدنا درست ہے۔ اور کفار اگر خبیث طریق سے مالک ہوں تو مسلمانوں کے حق میں اس کا کچھ اثر نہیں ہے۔ (فتاوى دار العلوم ديوبند: ج ١٤، ص ٤٠٣، فصل: خرید وفروخت کا بیان، ط. دار الإشاعت)
في قاموس الفقه: جس طرح خود کسی ناجائز اور خلاف شرع کام کرنا درست نہیں اسی طرح ایسے کاموں میں ملازمت اور تعاون بھی درست نہیں ... اس لیے بینک، انشورنس، شراب خانوں، قبحة خانوں کی ایسی ملازمت جائز نہیں ہوگی جس میں آدمی سود، قمار، شراب یا قبحة کے کاروبار کا ذریعہ بنے اس کی طرف لوگوں کو دعوت دے، سود کے حساب وکتاب لکھے، ہاں چپراسی وغیرہ کی ملازمت کی جاسکتی ہے، کیوں کہ اس کا براہِ راست اس کا روبار سے کوئی تعلق نہیں۔ (قاموس الفقه: ج ١، ص ٥٠٠، ط. زمزم ببلشرز)
في امداد الأحكام: امام اعظم کے نزدیک اہل ذمہ کے بھی معاملات خلاف شرع پر حکم فساد نہ لگایا جائےگا بشرطیکہ وہ معاملات خود ان کے دین کے موافق ہوں کیونکہ اہل ذمہ نے معاملات میں احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے خلاف میں نہیں کیا۔ ہاں اگر کسی معاملہ کی بابت معاہدہ ہی میں ان سے شرط کر لی جائے اس کا الزام ان کی طرف سے ہو گا۔ باقی معاملات شرعیہ جو ان کے معتقدات کے موافق نہیں اور نہ ان سے ان کے بارے میں کوئی شرط کی گئی ہے۔ ان میں اہل ذمہ کی طرف سے التزام نہیں پایا گیا لہٰذا ایسے معاملات جب وہ اپنے مذہب کے موافق کریں گے تو ان کو صحیح مانا جائے گا اور حکم فساد نہ دیا جائے گا۔ اس تفصیل سے شبہات مذکورہ سوال کا جواب ظاہر ہو گیا۔ اشکال کا منشا یہ تھا کہ جب کفار مخاطب بالعقوبات ومعاملات ہیں تو اگر وہ کوئی معاملہ خلاف شرع کر کے روپیہ حاصل کریں اس کو حلال نہ کہنا چاہتے بلکہ حرام کہنا چاہیے ۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کفار مخاطب بالفروغ في العقوبات والمعاملات اگر چہ ہیں لیکن حکم بالحرمتہ والفساد کے لئے خطاب عام کافی نہیں بلکہ الزام بھی شرط ہے ۔ اہل حرب نے تو احکام اسلام کا التزام بالکل نہیں کیا ۔ نہ اپنے معتقد کے موافق میں اور نہ مخالف میں لہذا وہ تو جس طرح بھی روپیہ کمائیں خواہ رباء سے خواہ غصب سے خواہ بیوع باطلہ وفاسدہ سے خواہ اپنے مذہب کے موافق خواہ مخالف طریق سے بہر صورت وہ روپیہ وغیرہ ان کی ملک میں داخل ہو جائے گا اور مسلمان کو تنخواہ میں لینا اس کا جائزہ ہے اور اہل ذمہ نے احکام اسلام کا التزام اپنے معتقدات کے موافقات میں کیا ہے. مخالفات میں نہیں کیا ۔ سوا ان امو کے جن کی شرط ان سے کر لی جائے، پس جو عقد اہل ذمہ اپنے دین کے موافق کریں وشرائط معاہدہ کے بھی خلاف نہ ہو اس میں حکم صحت دیا جائے گا گو وہ شریعت کے خلاف ہو البتہ جو عقد ان کے دین کے بھی خلاف ہو یا شرائط معاہدہ کے خلاف ہو اس میں حکم فساد دیا جائے گا۔ (امداد الأحكام: ج ٤، ص ٣٩٠، كتاب والإباحة، معاملات المسلمين بأهل الكتاب والمشركين، ط. مكتبة دار العلوم كراتشي)
في جواهر الفقه: کسی معصیت کی اعانت جواز روئے قرآن حرام ہے، وہ ہے جس میں معصیت کا قصد ونیت حقیقت یا حکماً شامل ہو حقیقہ یہ کہ دل ہی میں یہ ہو کہ اس کے ذریعہ عمل معصیت کیا جائے، یا یہ کہ صلب عقد میں احد المتعاقدین کی طرف سے اس معصیت کی تصریح آجائے، اور حکما یہ ہے کہ وہ چیز بجز معصیت کے کسی دوسرے کام میں آتی ہی نہ ہو، جیسے آلات معازف طبلہ سارنگی اور مختلف قسم کے آلات موسیقی ان چیزوں کا بنانا اور بیچنا اگر چہ بقصد معصیت نہ ہو مگر حکما وہ بھی قصد معصیت میں داخل ہیں، اور جہاں قصد معصیت نہ حقیقت ہو نہ حکماً، وہ اعانت علی المعصیۃ میں داخل نہیں، البتہ اعانت سے ملتی جلتی ایک اور چیز ہے جس کو اصطلاح میں تسبب کہتے ہیں، وہ بھی از روئے نص قرآن حرام ہے، خواہ ہیئت معصیت ہو یا نہ ہو، مثلا سب الہ مشرکین کی نص قرآنی میں ممانعت اسی لئے فرمائی گئی ہے کہ وہ سبب ہوتی ہے سب الہ حق کیلئے ... اگر چہ یہ ظاہر ہے کہ ان تمام امور میں معصیت کے قصد ونیت کا دور کا بھی احتمال نہیں۔لیکن یہاں ایک اہم بات قابل غور یہ ہے کہ تسبب ایک ایسا وسیع لفظ ہے جس میں سارے مباحات آجاتے ہیں، اگر تسبب کے مفہوم کو مطلقا سببیت کے لئے عام رکھا جائے، تو شاید دنیا کا کوئی مباح کام بھی مباح اور جائز نہیں رہے گا، زمین سے غلہ اور پھل اگانے والا اس کا بھی سبب بنتا ہے کہ اس غلہ اور ثمرات سے اعداء اللہ کو نفع پہنچے، کپڑا بننا، مکان بنانا، ظروف اور استعمالی چیزیں بنانا ان سب میں بھی یہ ظاہر ہے کہ ہر ایک بر وفاجر ان کو خریدتا استعمال کرتا ہے، اور اپنے فسق وفجور میں بھی استعمال کرتا ہے، اور سبب اس کا ان چیزوں کا بنانے والا ہوتا ہے، اگر اس طرح حرمت کو عام کیا جائے، تو شاید دنیا میں کوئی کام بھی جائز نہ رہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ سبب قریب وبعید کا فرق کیا جائے، سبب قریب ممنوع اور سبب بعید مباح ہو، مذکورہ امثلہ سب سبب بعید کی مثالیں ہیں، اس لئے وہ جائز رہیں گی... (جواهر الفقه: ج ٧، ص ٥١١-٥١٠، تفصيل الكلام في مسألة الاعانة على الحرام، ط. مكتبة دار العلوم كراتشي)
2
https://askimam.org/public/question_detail/15568
"2. The income of the doctors being paid by the insurance companies will be permissible. They are simply paid for the services rendered by them."