Question:
Answer:
Therefore, zakat money can only be paid to those students in a school who are eligible to receive zakat, and they must be made the owner of it. Zakat money cannot be used for the expenses of the school or to pay the teachers' salaries.
If the school accepts zakat in order to pay it to those who are eligible to receive it, and you trust the school to fulfil this responsibility with due diligence, only then you may give them your zakat money. In such a case, the school will be regarded as your agent in paying your zakat money. However, your obligation will only be discharged once the school delivers the money to eligible recipients.*
Sh. Muaaz Murtaza
6/05/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
في الفتوى الهندية: ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه...بعد اسطر...ولا تدفع المرأة إلى زوجها عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى كذا في الهداية...بعد اسطر...لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. (الفتوى الهندية. ج١. ص٢٠٨. ط قديمي كتب خانه).
وفي رد المحتار: (قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها ... وبعد أسطر... ولو له كسوة الشتاء وهو لا يحتاج إليها في الصيف يحل ذكر هذه الجملة في الفتاوى. اهـ. (الدر المختار مع رد المحتار: ج 2، ص 347، ط. سعيد).
في تبيين الحقائق: لأن الزكوة يجب فيها تمليك المال؛ لأن الإيتاء من قوله تعالى: ((واتو الزكوة)) يقتضي التمليك، ولا تتأدى بالإباحة، حتى لو كفل يتيماً فأنفق عليه ناوياً للزكوة، لا يجزيه، بخلاف الكفارة ولو كساه تجزيه لوجود التمليك. (تبيين الحقائق. ج٢. ص١٨. ط دار الكتب العلية).
في أحسن الفتاوى:
سوال: کتنی مالیت رکھنے والے پر زکوۃ نہیں لگ سکتی؟
الجواب: سونے، چاندی، مال تجارت اور گھر میں روزمرہ استعمال کی چیزوں سے زائد سامان کی قیمت لگا کر اس میں نقدی جمع کی جائے، ان پانچوں کا مجموعہ یا ان میں سے بعض ٨٧.٤٧٩ گرام سونے یا ٦١٢.٣٥ گرام چاندی کے برابر ہو جائے تو زکوۃ نہیں لے سکتا، تین جوڑے کپڑے سے زائد لباس اور ریڈیو اور ٹیلیویژن جیسی خرافات انسانی حاجات میں داخل نہیں، اس لئے ان کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی. (أحسن الفتاوى: ج ٤، ص ٢٦٤، ط. سعيد).
في فتاوى محمودية:
زکوۃ سے ملازمین مدرسہ کو تنخواہ دینا: سوال : ہمارے یہاں ایک مدرسہ عربیہ عرصہ سے قائم ہے جس میں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور غریب و نادار طلبہ کے قیام و طعام لباس اور دیگر ضروریات سے امداد و اعانت کی جاتی ہے۔ مدرسہ مذکورہ میں کئی قسم کی آمدنیاں ہیں قسم اول: منافع جائیداد موقوفه چنده عمومی ، خصوصی امداد سرکاری ، صدقات نافله. قسم دوم: صدقات مثل زکوة و قیمت کھال وغیرہ وغیرہ. آمدنی قسم اول تنخواه مدرسین و ملازمین و دیگر مصارف دفتر وغیرہ میں صرف کی جاتی ہے اور قسم دوم خوراک طلبہ و پوشاک و دیگر ضروریات طلبہ میں خرچ کی جاتی ہے کیونکہ آمدنی قسم اول مصارف قسم اول کے لئے کافی اور اراکین مدرسہ میں بعض ایسے خیال کے حضرات بھی ہیں جو حیلہ شرعی کو پسند نہیں کرتے۔ اس لئے . دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا آمدنی قسم دوم میں سے محصل ومحرر و محاسب جو اس مدرسہ میں بھی کام کر رہے ہیں اور ان کی اجرت یا تنخواہ بحصہ ہنر اس میں سے دے دیا جائے تو جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: صدقات واجبہ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ ان کو مصارف ( فقراء وغیرہ) پر بطور تملیک بلاعوض صرف کیا جائے لہذا اتنخواہ میں دینا جائز نہیں، اگر کارکنان مدرسہ بغیر شرعی حیلے کے تنخواہ میں دیں گے تو زکوۃ وغیرہ ادا نہیں ہوگی اور اصل معطی کے حق میں یہ لوگ ضامن ہوں گے، ھکذا فی کتب الفقہ. (فتاوى محمودية. ج٩. ص٦٠٤. ط اداره الفاروق كراتشي).
وفيه ايضا: ادائے زکوٰہ بغیر تملیک کے، زکوۃ کا پیسہ تنخواہ میں دینا: سؤال: اگر مہتم مدرسہ بغیر تملک کے مدرسین کو خواہ دیتا ہے، جب ہم تم سے کہدیا گیا ہو و کہ بغیر تملیک کے زکوٰۃ کے مال کا صرف کرنا جائز نہیں تو اس صورت میں مدرسین کے اوپر تو کوئی گناہ لازم نہیں آئے گا؟
الجواب: اگر مدرسین کو معلوم ہے کہ یہ زکوٰۃ کا روپیہ تنخواہ میں دیا جا رہا ہے تو وہ لینے سے انکار کر دیں، تاہم اگر لے لیں گے تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی اور مہتمم کے ذمہ ضمان لازم ہوگا. (فتاوى محمودية. ج٩. ص٦٠٩. ط اداره الفاروق كراتشي).
وفيه ايضا: سؤال: کیا صدقۂ فطر قربانی کی کھال اور زکوۃ وغیرہ دینی مدارس میں دے سکتے ہیں، اسی طرح کیا انہیں مساجد کی تعمیر وغیرہ میں خرچ کر سکتے ہیں؟
الجواب: یہ چیزیں براہ راست مدرسہ یا مسجد وغیرہ کے کسی ملازم کی تنخواہ یا تعمیر وغیرہ میں خرچ کرنا درست نہیں، البتہ دینی مدارس کے مستحق طلباء پر صرف کرنا درست ہے. (فتاوى محمودية. ج٩. ص٥٨٨. ط اداره الفاروق كراتشي).