Question:
Answer:
Note that if your husband does do raj’a and takes you back, he will only have one more talaq left before you become completely haram (mughalazzah) for him, which means that it will be haram for you to remarry him before halalah takes place. Therefore, he should be extremely careful in what he says.
If your husband does not take you back into his marriage before the expiry of your iddah, then your marriage with him will terminate upon the expiry of your iddah. This means that you will now be free to marry anyone you wish. You may even decide to remarry your current husband, however you must ensure to fulfil all the normal requirements of nikah, such as ijab/qabul, witnesses, etc. . If you remarry your current husband, keep in mind that if he issues one more talaq, you will become completely haram (mughalazzah) for him.
If your husband said something other than ‘Tujh ko chor diya’, then write back to us and quote his exact words.
It should be noted that it is strictly prohibited and sinful for a man to divorce his wife while she is on her period. Despite this, the divorce takes place. *
Sh. Muaaz Murtaza
18/04/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
قال تعالى: ((وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن فأمسكوهن بمعروف أو سرحوهن بمعروف ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا ومن يفعل ذلك فقد ظلم نفسه ولا تتخذوا آيات الله هزوا واذكروا نعمة الله عليكم وما أنزل عليكم من الكتاب والحكمة يعظكم به واتقوا الله واعلموا أن الله بكل شيء عليم)). (اية ٢٣١. سورة البقرة).
في مختصر القدوري: اذا طلق الرجل امراته طليقة رجعية او طليقتين فله ان يراجعها في عدتها رضيت المراة بذلك او لم ترض. والرجعة ان يقول لها: راجعتك او راجعت امراتي او يطاها او يقبلها او يلمسها بشهوة او ينظر الى فرجها بشهوة. (مختصر القدوري. ج٢. ص٢٤٦. ط دار الكتب العلمية).
في الفتاوى العالمكيرية: الرجعة ابقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة. (الفتاوى العالمكيرية. ج١. ص٥٠٢. ط قديمي كتب خانه).
في حاشية ابن عابدين: فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي. (حاشية ابن عابدين. ج٣. ص٢٩٩. ط سعيد).
في الفتاوى العالمكيرية: ولو قال حرمت نفسي عليك فاستتري ونوى بهما طلاقاً فهي واحدة بائنة لأنه لا يقع على بائن بائن...بعد اسطر...الطلاق الصريح يلحق الطلاق الصريح بأن قال أنت طالق وقعت طلقة ثم قال أنت طالق تقع أخرى ويلحق البائن أيضا بأن قال لها أنت بائن أو خالعها على مال ثم قال لها أنت طالق وقعت عندنا والطلاق البائن يلحق الطلاق الصريح بأن قال لها أنت طالق ثم قال لها أنت بائن تقع طلقة أخرى ولا يلحق البائن البائن بأن قال لها أنت بائن ثم قال لها أنت بائن لا يقع إلا طلقة واحدة بائنة.(الفتاوى العالمكيرية. ج١. ص٤١٣. ط قديمي كتب خانه).
في فتاوى عثمانية: عرف کی وجہ سے کنائی الفاظ کا صریح بننا: طلاق کے الفاظ چونکہ ہر عرف میں طلاق کے لیے متعین ہیں، اس لیے طلاق کے الفاظ کے علاوہ بقیہ الفاظ میں عرف کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔ اگر کوئی لفظ طلاق کے لیے کنائی ہو لیکن کسی خاص عرف میں اس کا استعمال طلاق کے لیے اس کثرت سے ہونے لگے کہ اس لفظ سے طلاق ہی کی طرف ذہن جاتا ہو تو اس کو لفظ صریح کا درجہ حاصل ہوگا، لہذا اگر شوہر یہ کہے کہ اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی تو اس کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا اور طلاق واقع ہو جائے گی۔ چنانچہ لفظ حرام اگر چہ طلاق کے لیے لفظ کنائی ہے، لیکن طلاق کے لیے کثرت استعمال کی وجہ سے فقہا نے اس سے بلانیت طلاق واقع ہونے کا فتوی دیا ہے. (فتاوى عثمانية. ج٦. ص٧٤. ط العصر).
وفيه أيضا: طلاق بدعی: اس کی بھی دو صورتیں ہیں: طلاق بدعی باعتبار عدد اور طلاق بدعی باعتبار وقت ۔ طلاق بدعی با عتبار وقت یہ ہے کہ حیض میں طلاق دی جائے یا ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں جماع کر چکا ہو۔ یہ انتہائی سخت گناہ ہے، اس صورت میں رجوع واجب ہے۔ رجوع کے بعد یا تو بیوی کو دوبارہ اپنے ساتھ رکھے یا دوسری طلاق خالص طہر میں دے. (فتاوى عثمانية. ج٦. ص١١. ط العصر).
في الفاظ طلاق كے احكام: شوہر نے بیوی سے کہا: "میں نے تجھے چھوڑ دیا:
"چھوڑ دیا" رجعی ہے یا بائن ہے اور اس میں نیت کی ضرورت ہے یا نہیں، اس بارے میں اردو فتاوی میں اختلاف ہے۔ امداد الفتاوی، امدادالاحکام، امداد المفتین، فتادی محمودیہ، فتاوی رحیمیہ، احسن الفتاوی اور فتاوی عثمانی وغیرہ میں اس کو عرف عام کی وجہ سے صریح رجعی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ صریح ہونے کی وجہ سے اس میں نیت کی ضرورت نہیں ہے اور رجعی ہونے کی وجہ سے اس سے واقع ہونے والی طلاق بائن نہیں بلکہ رجعی ہوگی۔ کفا یت المفتی ، فتاوی دارالعلوم دیوبند، عزیز الفتاوی، فتاوی حقانية اور فتاوی دار العلوم زکریا میں اس کو کنایہ اور نیت کا محتاج لکھا ہے اور اس سے واقع ہوئے والی طلاق کو بائن قرار دیا گیا ہے۔ ان فتاوی کی بنیاد اس امر پر ہے کہ یہ لفظ (سرحتك) اصل میں کنایہ ہے اور اپنی اصل کی وجہ سے نیت کا محتاج ہے۔ غرض یہ کہ اکثر اردو فتاوی میں اسے صریح رجعی جب کہ بعض میں اسے کنایہ بائن کہا گیا ہے. چنانچہ کفا یت المفتی میں ہے: اگر مرد نے یہ لفظ "میں نے تجھ کو چھوڑ دیا" تین بار کہا تو اس کی عورت پر طلاق بائن ہو گئی، عورت نکاح سے باہر ہو گئی البتہ بیوی کی رضامندی سے گواہوں کے سامنے تجدید نکاح کر سکتا ہے. فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے: در مختار وغیرہ کتب فقہ میں "سرحتك" کو کنایات میں لکھا ہے جس کا ترجمہ ہے "میں نے تجھ کو چھوڑ دیا" حکم کنایات کا یہ ہے کہ ان سے طلاق بائنہ واقع ہوتی ہے. عزیز الفتاوی میں ہے: یہ لفظ کہ "میں نے تجھے چھوڑ دیا" کنایات میں سے ہے، پس اگر حالت غصہ یا مذاکرہ طلاق میں شوہر کی زبان سے یہ لفظ نکلا تو قاضی حکم طلاق کا کر دے گا اور ديانة فیما بینہ و بین اللہ اگر شوہر کی نیت طلاق کی ہے تو طلاق واقع ہو گی ورنہ نہیں. دوسری جگہ پر ہے: لفظ "چھوڑ چکا" ترجمہ فارقتك کا ہے اور یہ لفظ کنایات میں سے ہے اگر شوہر نے یہ لفظ بہ نیت طلاق یا بوقت ذکر طلاق کہا ہے تو اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ورنہ نہیں. شروع میں حضرت مفتی صاحب کی یہی رائے تھی بعد میں اپنے بعض فتاوی میں مرت قرار دینے والوں کی تائید کی ہے. چنانچہ عزیز الفتاویٰ میں ہے: سوال: زید نے کہا "میں نے اپنی عورت چھوڑ دی، چھوڑ دی، چھوڑ دی" اس صورت میں طلاق رجعی ہوئی یا بائن یا مغلظہ؟ مولانا عبد الحی صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب نے طلاق رجعی لکھی ہے.(بعد أسطر) فتاوی حقانیہ میں ہے: "میں نے اُسے چھوڑ دیا" یہ الفاظ طلاق کنایہ کے ہیں نیت کی موجودگی میں طلاق بائن واقع ہو گی، لیکن علامہ ابن عابدین شامی نے عرف کے حوالے سے طلاق رجعی شمار کیا ہے جس سے بغیر نیت طلاق رجعی واقع ہوتی ہے. فتاوی دار العلوم زکریا میں ہے: لفظ "چھوڑدیا" کنایہ ہے جو کہ نیت کا محتاج ہے، اگر طلاق کی نیت تھی تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی، لیکن بعض علماء نے اس کو صریح الفاظ میں شمار کیا ہے لہذا بلانیت طلاق رجعی واقع ہو گی. اس کے برخلاف امداد الفتاویٰ میں ہے: پہلی بار میں جب کہا "چھوڑ دی" یہ طلاق صریح ہے اور رجعی ہے. امداد الاحکام میں ہے: "چھوڑی" ہماری زبان میں صریح ہے ایک طلاق رجعی واقع ہو گی، نیت ہو یا نہ ہو. امداد المفتین میں ہے: "چھوڑ دیا" کا لفظ ہمارے عرف میں صریح ہے محتاج نیت نہیں، اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گی. فتاوی محمودیہ میں ہے: یہ لفظ "میں نے تجھے چھوڑ دیا" ہمارے عرف میں بمنزلہ صریح طلاق کے ہے. جب کوئی اپنی زوجہ کو کہے، تو اس سے بغیر نیت کے طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے. عربی میں "سرحتك"، فارسی میں "بهشتم"، "رها کردم" یا "یله کردم" اصالہ کنایہ ہیں لیکن عرفا ان کا استعمال طلاق ہی میں غالب ہے. ایسے الفاظ سے بلانیت ہی طلاق واقع ہوتی ہے اور طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور یہ حکم غلبہ استعمال کی بنیاد پر ہے لہذا جہاں عرف نہ ہو گا وہاں یہ حکم بھی نہ ہوگا. فتاوی رحیمیہ میں ہے: لفظ چھوڑ دی “ کثرت استعمال کی وجہ سے صریح کے حکم میں ہے اس سے طلاق رجعی واقع ہوتی ہے. احسن الفتاویٰ میں ہے: "تجھ کو میں نے چھوڑ دیا" سرخنک کی طرح صریح طلاق ہے لہذا بلانیت اس سے طلاق رجعی واقع ہو گی. فتاوی مفتی محمود میں ہے: واضح رہے کہ لفظ "چھوڑ دیا" اردو میں طلاق صریح ہے ایک دفعہ کہنے سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گی دو دفعہ سے دو اور تین دفعہ سے طلاق مغلظہ واقع ہو جائے گی. ایک اور سوال کے جواب میں لکھا ہے: "چھوڑ دیا" لغت ہندیہ کا لفظ صریح ہے اور صریح ہر لغت کا معتبر ہے صریحه ما لم يستعمل الا فيه ولو بالفارسية (در مختار) علامہ شامی نے لفظ حرام کے تحت میں لفظ حرمت کا یہی حکم لکھا ہے اگر چہ اصل سے کنایہ ہے مگر عرف میں بحکم صریح ہو جانے کی بنا پر اس لفظ سے بلانیت طلاق و بلا مذاکرہ بھی قضاء طلاق واقع ہو جاتی ہے. مولانا تھانوی نے امداد الفتادی (۴۵۶/۲)، میں بھی لفظ "چھوڑ دیا" کو طلاق صریح میں شمار کیا ہے. (الفاظ طلاق كے احكام. ص١٣٧. ط مكتبة السنان كراتشي).