Question:
I have questions regarding IVF using donor eggs from another woman, resulting in a child being born to a married couple.
- What is the status of that child? Is the child considered illegitimate?
- Is this child considered a mahram to the couple?
- Have the parents committed zina or engaged in something haram?
Jazakallahu Khairan.
Answer:
Firstly, it is important to note that undertaking IVF or other methods of assisted reproduction that involve donor eggs from a third party is completely impermissible. However, if this incorrect and sinful procedure has been adopted and a child is born, the child will be attributed to the husband, i.e. the woman who has given birth to the child will be recognised as the biological mother, and her husband will be the biological father. Consequently, the child born through this IVF procedure will be deemed legitimate and will be regarded as a valid mahram according to Sharia.
As for the woman whose eggs were used, she will not be considered the biological mother of the child. However, some scholars have stated that, as a precautionary measure, the rulings of hurmat al-musahara will apply between her and the child, given that her egg was involved in the reproductive process. This implies that she, along with her ascendants and descendants, will be considered the child’s mahram (permanently forbidden for marriage), and subsequently the associated prohibition of marriage will apply. In sensitive matters relating to the prohibition of marriage and establishment of lineage, one must exercise utmost caution; therefore, this view should be adopted.
Lastly, to classify someone as an adulterer is a grave and extremely serious matter. Until there is conclusive evidence that zina has taken place between a man and woman, it is not permissible to label them as such. This is derived from the Fiqh principle that hudud punishments (such as that of zina) are to be suspended in cases of doubt. The act of zina involves physical contact and the fulfilment of desires in an impermissible manner, neither of which are established in the scenario described above. Therefore, due to the lack of conclusive evidence, the act of zina cannot be attributed to the couple. With that said, this does not in any way diminish the severity of the sin committed by transplanting one woman’s egg into another woman’s womb, as this practice inherently carries the same outcome as that of zina, such as confusion of lineage and establishment of hurmat al-musahara. Therefore, this practice is totally and strictly prohibited.*
Sh. Anas Ahsan
11/09/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
قرارات وتوصيات مجمع الفقه الإسلامي الدولي:
قرار رقم : ١٦ (٣/٤) (١) بشأن أطفال الأنابيب: إن مجلس مجمع الفقه الإسلامي الدولي ... بعد استعراضه البحوث المقدمة في موضوع التلقيح الصناعي (أطفال الأنابيب)، والاستماع الشرح الخبراء والأطباء، وبعد التداول الذي تبين منه للمجلس أن طرق التلقيح الصناعي المعروفة في هذه الأيام هي سبعة قرر ما يلي: أولا: الطرق الخمس التالية محرمة شرعًا، وممنوعة منعا باتا لذاتها أو لما يترتب عليها من اختلاط الأنساب، وضياع الأمومة، وغير ذلك من المحاذير الشرعية:
الأولى: أن يجري التلقيح بين نطفة مأخوذة من زوج، وببيضة مأخوذة من امرأة ليست زوجته، ثم تزرع تلك اللقيحة في رحم زوجته... إلى آخره (قرارات وتوصيات مجمع الفقه الإسلامي الدولي: ص. 70)
في جديد فقهي مسائل:
بنیادی طور پر ٹسٹ ٹیوب کے ذریعہ تولید کی دو شکلیں ہیں: اول یہ کہ اجنبی مرد و عورت کے مادہ منویہ اور بیضتہ المنی کو باہم خلط کر کے تولید عمل میں آئے ، چاہے یہ دو اجنبی مادے کسی ٹیوب میں خلط کئے جائیں، یا خود اسی عورت کے رحم میں یا کسی اور عورت کے رحم میں، یا خود اس مرد کی قانونی اور شرعی بیوی کے رحم میں، یہ صورت بہر حال نا جائز ہوگی کہ اس کی وجہ سے نسب میں اختلاط ہوتا ہے اور زنا کی ممانعت کی اصل وجہ یہی اختلاط نسب ہے۔
پس اجنبی مرد و عورت کے مادے کے اختلاط کی تمام صورتیں گناہ ہیں اور حکم كے اعتبار سے زنا ہیں، البتہ چوں کہ حدود ( شریعت کی مقرر سزائیں ) معمولی شبہات کی وجہ سے بھی ساقط ہو جاتی ہیں اور یہاں بھی یہ شبہ موجود ہے، اس لئے کہ زنا دو اجنبیوں کے درمیان ایک جسمانی فعل ، یعنی مباشرت کا نام ہے اور ان صورتوں میں یہ فعل اپنی ظاہری شکل کے ساتھ موجود نہیں۔ دوسرے زنا میں دو اجنبی مردو عورت ایک دوسرے کے جسم سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں، جب کہ اس مصنوعی عمل کے ذریعہ اس طرح کی لذت حاصل نہیں کی جاسکتی، اس لیئے اس عمل کی وجہ سے زنا کی مقررہ شرعی سزا (حد) نافذ نہیں کی جائے گی۔ البتہ چوں کہ یہ عمل اپنی روح اور نتائج کےلحاظ سے اسى قدر مضر ہے، جس قدر خود فعل زنا، اس لئے قاضی اس پر مناسب تعزیر اور سرزنش کرے گا۔
ہاں اگر کسی اجنبی عورت کا بیضہ المنی حاصل کیا گیا اور کسی مرد کے مادہ منویہ کے ساتھ ٹسٹ ٹیوب کے ذریعہ آبیدگی کی گئی اور پھر یہ "لقیحہ" اس مرد کی جائز بیوی کے رحم میں منتقل کر دیا گیا اور اس کی بیوی نے اس کو جنا تو اب اس کی بیوی بچہ کی ماں قرار پائے گی، کیوں کہ قرآن میں ماں اس عورت کو قرار دیا گیا ہے، جو بچوں کو جنے اور جب اس مرد کی زوجہ ماں قرار پائی تو چوں کہ وہ اس کی فراش ہے۔ اس لئے وہ خود اس بچہ کا باپ قرار پائے گا اور جنے والی ماں کے شوہر سے بچہ کا نسب ثابت ہوگا۔ رہ گئی وہ عورت جس کا بیضہ المنی اس کی تخلیق کے لئے حاصل کیا گیا تھا تو اس کی حیثیت ماں کی نہ ہوگی، کیوں کہ شریعت میں محض یہ بات ثبوت نسب کے لئے کافی نہیں کہ مولود کسی کا جزء بن جائے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تخلیق میں جس مرد وعورت کا جزء بنا ہو، وہ جائز اور حلال طریقہ پر بنا ہو، ... البتہ چوں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرمت نکاح میں غایت درجہ احتیاط برتی گئی ہے اور اس لئے زنا سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے، اس لئے ان تمام صورتوں میں مولود کے لئے اس مرد کے خاندان سے بھی حرمت قائم ہوگی ، جس کا مادہ منویہ اس کی تخلیق میں استعمال ہوا ہے، اس عورت کے خاندان سے بھی جس نے اس کو جنا ہے اور اس کے لئے زحمت ولادت برداشت کی ہے اور اس عورت کے خاندان سے بھی ، جس کے رحم سے اس کے وجود کے لئے بیضہ المنی حاصل کیا گیا ہے۔ (جديد فقهي مسائل، 5/98، ط. زمزم)
في فتاوى عثمانى:
قرآن کریم کے ارشاد " إن أمهتهم إلا اللائي ولدنهم " (سورة الجادلۃہ آیت نمبر۲) سے اس بارے میں صریح معلوم ہوتا ہے کہ اُمومیت اس عورت میں منحصر ہے جس کے رحم سے بچہ پیدا ہوا ہو، اس طرح "حملته أمه كرها ووضعته كرها" ( سورة الاحقاف آیت نمبر ۱۵) کا مقتضی بھی یہی ہے، لہذا جس عورت کے رحم سے بچہ پیدا نہیں ہوا، مذکورہ آیات قرآنی کی رو سے اس کو شرعا ماں قرار دینا ممکن نظر نہیں آتا۔
رہی یہ بات کہ اصل نطفہ اس عورت کا ہے، سو مجرد اتنی بات سے اس کی اُمومیت ثابت ہونی مشکل ہے، اولاً تو اس لئے کہ خود آپ کے ارشاد کے مطابق جنین کی بناء اصلی میں صاحبة الرحم سے مواد حاصل ہوتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ محض نطفہ بچے کی تخلیق کے لئے کافی نہیں، جب تک وہ ایک عرصہ رحم میں رہ کر صاحبة الرحم کا مواد حاصل نہ کرلے، لہذا جس عورت کے بیضہ اسی میں نطفہ کا جرثومہ داخل ہوا، وہ ولادت کے لئے سبب کافی نہیں ۔ (فتاوى عثماني: 4/299 ط. مكتبة معارف القران)