Question:
Can the jumma prayer be performed in a Musalla where there is no five times namaaz performed. But in month of Ramadan taraveh prayer is performed.
Jazakallah
Answer:
Therefore, Jum’ah salat will be valid in the musallah in question provided that the abovementioned conditions are found.
Note: The outskirts of a city or town refer to areas lying just outside its boundaries that are used for city/town requirements, such as waste disposal, cemeteries and other services. For the validity of Jum’ah, it is not necessary for the outskirts to be directly connected to the city.*
Sh. Motaz Siddiqui
27/08/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
في تبيين الحقائق: "قال رحمه الله: (أو مصلاه) أي مصلى المصر وهو معطوف على المصر يعني شرط أدائها المصر أو مصلاه والحكم غير مقصور على المصلى بل يجوز في جميع أفنية المصر لأنها بمنزلته في حق حوائج أهل المصر لأنها معدة لحوائجهم، واختلفوا في تقدير الأفنية فبعضهم قدرها بميل وبعضهم بميلين وقيل: بفرسخين وقيل: بغلوة وقيل : إذا كان بين المصر والمصلى مزارع لا تجوز فيه الجمعة". (تبيين الحقائق: ١/٥٢٥ ط دار الكتب العلمية)
في الدر المختار: "(ويُشترط لصحتها) سبعة أشياء: الأوَّلُ (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء"... و بعد أسطر... "(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي".
و تحته في الشامي: " (قوله: وإذا اتصل به الحكم إلخ) قد علمت أن عبارة "القهستاني" صريحة في أن مجرد الأمر رافع للخلاف بناءً على أن مجرد أمره حكم. (قوله :أو لا) زاده للإشارة إلى أن قول المصنف (ما اتصل به) ليس قيداً احترازياً كما في الشرنبلالية. (قوله: والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة، وكذا محرر المذهب الإمام محمد، وبعضهم قدره بها، وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة: غلوة، ميل، ميلان، ثلاثة فرسخ، فرسخان، ثلاثة، سماع الصوت، سماع الأذان، والتعريف أحسن من التحديد؛ لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر، وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره. بيانه: أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر؛ لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منها على فراسخ من كل جانب، نعم هو ممكن لمثل بولاق، فالقول بالتحديد بمسافة يُخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر، فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك، وأي موضع يُحد مسافة يسع عساكر مصر، ويصلح ميداناً للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ؟! فظهر أن التحديد بحسب الأمصار. اهـ ملخصاً من "تحفة أعيان الغنى بصحة الجمعة والعيدين في الفنا" للعلامة الشرنبلالي. (رد المحتار: ٥/٤-١١ ط دار السلام)
في الفتاوى الهندية: "(ومنها الإذن العام) وهو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافة..." (الفتاوى الهندية: ١/٣١٨ ط رشيدية)
آپ کے مسائل اور ان کاحل
جمعہ کے جواز کے لئے مسجد کا خاص طول و عرض ضروری نہیں...(آپ کے مسائل اور ان کاحل: ٤/١١١ ط مکتبہ لدھیانوی)
سوال : ہمارے علاقے کشمیر میں دو جامع مسجد موجود ہیں جن میں امام مقر بھی ہیں، لاؤڈ اسپیکر وغیرہ سب کچھ موجود ہے لیکن ان مسجدوں میں نہ تو پانچ وقت کی اذان ہوتی ہے اور نہ ہی جماعت صرف جمعہ کی نماز ہوتی ہے، لوگ اصرار کرتے ہیں، لیکن امام صاحب پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھاتے، کیا ایسے مسجد میں جمعہ کی نماز ہوجاتی ہے؟ اور کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے جو کہ پانچ وقتہ نمازیں مسجد میں نہ شروع کرائے؟ اور کیا مقتدیوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ پانچ وقتہ نماز شروع کرائی جائے؟
جواب: جمعہ کی نماز تو صحیح ہے، لیکن اگر امام پنج گانہ نمازیں نہ پڑھائے تو اہلِ محلہ کا فرض ہے کہ ایسے امام کو برطرف کردیں اور کوئی ایسا امام تجویز کریں جو پانچ وقت کی نماز پڑھایا کرے مسجد میں پانچ وقت کی اذان و جماعت مسجد کا حق ہے، اور اس حق کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے تمام اہل محلہ گناہگار ہیں. (آپ کے مسائل اور ان کاحل: ٤/١٢٢ ط مکتبہ لدھیانوی)
فتاوی رحیمیہ
صحت جمعہ کے لیے مسجد شرط نہیں، شہر یا فنائے شہر میں جہاں کہیں مسجد کی طرح نماز پڑھنے کی عام اجازت ہو نماز جمعہ پڑھی جاسکتی ہے۔ مگر مسجد میں پڑھنے کا ثواب نہیں ملے گا۔ (فتاوی رحیمیہ ٢/ ٢٩٥ ط دار الإشاعت)
أحسن الفتاوى
سوال : شہر سے ایک دومیل پر ایک گاؤں ہے جس کی آبادی سو دو سو آدميوں کی ہے یہ بستی اپنے نام سے الگ مشہور ہے، اس بستی میں عیدین کی نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ بستی فناء میں شمار ہوگی نہیں؟
الجواب: یہ بستی فناء مصر میں داخل نہیں، اس لئے اس میں جمعہ وعید کی نمازہ جائز نہیں، فناء مصر وہ مقام ہے جو شہر کی ضروریات کے لئے متعین ہو مثلاً قبرستان، کوڑا ڈالنے یا گھوڑ دوڑ یا جنگی مشق یا فوجی اجتماع وغیرہ کے لئے میدان، ہوائی اڈہ اور ریلوے سٹیشن وغیرہ، فناء کا شہر سے اتصال ضروری نہیں اور نہ ہی اس کی مسافت اور وسعت کی کوئی تحدید ہے بلکہ شہر کی حیثیت کے مطابق اس کی فناء مختلف ہوگى۔ (أحسن الفتاوى: ٤/١٣٣ ط سعيد)