Question:
Answer:
It should be noted that when lowering the index finger, it should not be lowered so far that it touches the thigh. Instead, it should be lowered to a lesser degree. This is based on the more accurate opinion, though some scholars have simply stated that one should lower the finger.*
Sh. Ahmed Jariwala
30/08/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
في رد المحتار: وفي المحيط: أنها (أي الإشارة) سنة يرفعها عند النفي، ويضعها عند الإثبات، وهو قول أبي حنيفة ومحمد، وكثرت به الآثار والأخبار، فالعمل به أولى...وبعد أسطر...ولذا قال في منية المصلي: فإن أشار يعقد الخنصر والبنصر ويحلق الوسطى بالإبهام ويقيم السبابة. وقال في شرحها الصغير: وهل يشير عند الشهادة عندنا؟ فيه اختلاف، صحح في الخلاصة والبزازية أنه لا يشير وصحح في شرح الهداية أنه يشير، وكذا في الملتقط وغيره. (رد المحتار، ج ١ ص ٥٠٨، ط. سعيد)
في بدائع الصنائع: وذكر الفقيه أبو جعفر الهندواني: أنه يعقد الخنصر والبنصر ويحلق الوسطى مع الإبهام ويشير بالسبابة وقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم هكذا كان يفعل. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج ٢ ص ٧١، ط. دار. الكتب العلمية)
في مراقي الفلاح: يرفعها عند النفي أي نفي الألوهية عما سوى الله تعالى بقوله: "لا إله" ويضعها عند الإثبات أي إثبات الألوهية لله وحده بقوله: "إلا الله" ليكون الرفع إشارة إلى النفي والوضع إلى الإثبات. (مراقي الفلاح، ص ١٠١، ط. المكتبة العصرية)
امداد الفتاوى میں ہے: سوال (۱۹۸) بہشتی زیور حصہ دوم میں لکھا ہے کہ تشہد پڑھتے وقت جب کلمہ پر پہنچے تو بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر کلمہ کی انگلی کو اٹھا دیوے اور سلام پھیرنے تک اسی طرح اٹھائے رہے لیکن یہاں کے چند ملا صاحبان اس پر معترض ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ طریقہ شافعی مذہب کا ہے حنفى مذہب میں آخر تک انگلی کو اٹھائے رکھنا کسی کتاب میں نہیں ہے چنانچہ ان لوگوں نے اردو کی کئی ایک کتا بیں مجھے دکھلائیں (جن میں شامی و کبیری وغیرہ کا حوالہ ہے) جس میں لکھا ہے کہ بروقت کہنے اشهد ان لا الہ کے انگلی کلمہ کی اٹھاوے اور جب الا اللہ زبان سے کہے اس وقت انگلی کو گرا دے۔
الجواب۔ ذرا جھکا دے یہ معنی ہیں گرانے کے اور حلقہ بنائے رکھے اور بالکلیہ نہ گرادے۔ صرح به ملا على القارى فى رسالة تزئين العبارة بتحسين الإشارة. (امداد الفتاوى، ج ١ ص ٥٠٤، ط. مكتبه دار الاشاعت)
وفيه أيضا: سوال (۱۹٦) قدیم ۲۰٦/۱ رفع سبابہ کو سلام کے وقت تک رکھنے کی کیا دلیل ہے؟ میں نے بہت تلاش کی، مگر نہ ملی؛ بلکہ مولانا عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے "التعلیق الممجد" میں ملا علی قاری کے حوالہ سے یہ نقل کیا ہے: والصحيح المختار عند جمهور أصحابنا: أن يضع كفيه على فخذيه، ثم عند وصوله إلى كلمة التوحيد يعقد الخنصر والبنصر، ويحلق الوسطى والإبهام، ويشير بالمسبحة رافعا لها عند النفي واضعا عند الإثبات، ثم يستمر على ذلك؛ لأنه ثبت العقد عند ذلك بلا خلاف، ولم يوجد أمر بتغيره، فالأصل بقاء الشيء على ما هو عليه. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع سبابہ صرف نفی کے وقت ہونا چاہئے، بعدہ اس کا وضع چاہئے اور اسی طرح حلق مع وضع سبابہ اخیر صلوۃ تک چاہئے۔ اور جو حدیث ترمذی کے ابواب الدعوات میں ہے۔ اس سے رفع سبابه الى آخر الصلوۃ ظاہر نہیں ہوتا؛ بلکہ اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ قبض اصابع وبسط سبابہ بلکہ اس سے صرف یہ اخیر صلوۃ تک چاہئے، بہر کیف رفع سبابہ الی آخر الصلوة کی کوئی روایت با وجود سعی کے نظر سے نہ گزری۔
الجواب : واقعی بقاء اشارہ میں روایت ترمذی کی صریح نہیں گو محتمل ہے اور ملا علی قاری کی عبارت کا مدلول بھی واقعی قبض اصابع وبسط سبابہ ہی کا بقاء ہے نہ کہ اشارہ کا۔ پس بہشتی زیور کے مضمون سے رجوع کرتا ہوں اور اس کو اس طرح بدلتا ہوں تشہد میں لاالہ کے وقت انگلی اٹھاوے اور الا اللہ پر جھکا دے مگر عقد اور حلقہ کی ہیئت کو اخر نماز تک باقی رکھے۔ وجزاكم الله على هذا التنبيه. (امداد الفتاوى، ج ١ ص ٤٩٦، ط. مكتبه دار الاشاعت)
فتاوى دار العلوم زكريا میں ہے: اشارہ بالسبا بہ کا بہتر طریقہ: اشارہ بالسبا بہ کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے او بیچ کی انگلی سے حلقہ باندھ لے اور چھنگلیاں اور اس کے پاس کی انگلی کو مٹھی کی طرح بند کرلے اور کلمہ شہادت کی انگلی اٹھا کر اشارہ کرے یعنی لاالہ پر انگلی اٹھائے اور الا اللہ پر جھکا دے، بالکل گرانہ دے، پھر اخیر قعدہ تک اسی طرح حلقہ باندھے رکھے...و بعد اسطر... محققین کے نزدیک مذہب مختار یہ ہے کہ انگلی اخیر تک اٹھائے رکھے یعنی مکمل نہ رکھدے بلکہ ہلکی سی جھکا دے جس کو اٹھائے رکھنے سے تعبیر کیا ہے اور فقہاء کے اس قول کا بھی یہی مطلب ہے نیز نسائی شريف كى روايت کہ موافق بهى ہے. ..الخ. (فتاوى دار العلوم زكريا، ج ٢ ص ١٧٤، ط. زمزم پبلشرز)
فتاوى قاسميه میں ہے: قعدہ میں ہاتھوں کو رانوں پر اس طرح رکھنا کہ انگلیوں کے سرے گھٹنوں کے قریب ہوں، یہی مسنون طريقه ہے۔ عن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قعد في التشهد وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى، ووضع يده اليمنى على ركبته اليمني. (مسلم شريف، المساجد، باب صفة الجلوس في الصلاة، وكيفية وضع اليدين على الفخذين، النسخة الهندية ١/ ٢١٦، بيت الأفكار، رقم: ٥٨٠)
بحيث تكون أطراف أصابعه على حرفى ركبتيه لا مباعدة عنها، كذا في الفتح. (طحطاوي على المراقي، قديم ١٤٦، دار الكتاب ١ / ٢٦٨، ٢٦٩)
وينبغي أن تكون أطراف الأصابع على حرف الركبة لا مباعدة عنها. (فتح القدير، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، زكريا ۱ / ۲۱، کوئٹه ۱ / ۲۷۲، حاشیة چلپی، باب صفة الصلاة، فصل إذا أراد الدخول في الصلاة كبر، مكتبه إمداديه ملتان ١ / ۱۲۱، زکریا ۱/٣۱٣) فقط واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم. (فتاوى قاسميه، ج ٥ ص ٧٣٩، ط. دار الاشاعت)
وفيه أيضا: تشہد میں کلمہ کے موقع پر داہنے ہاتھ کی اخیر کی دو چھوٹی انگلیوں کو بند کرے اور بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنا کر "لا الہ" پرانگلی اٹھائے اور "الا اللہ" پر رکھ دے۔ اور حلقہ اخیر تک باقی رکھے، یہی صورت اولی ہے۔ (فتاوى قاسميه، ج ٥ ص ٧٤٠، ط. دار الاشاعت)
فتاوى عثمانيه میں ہے: تشہد میں "أشهد أن لا اله إلا الله " میں کلمہ نفی”لا“ پرانگلی اٹھانا اور کلمہ اثبات یعنی ” إلا الله“ پر انگلی گرانا جو اشارہ کے نام سے معنون ہے۔ (فتاوى عثمانيه، ج ٢ ص ٨٩، ط. العصر اکیڈمی)
احسن الفتاوی میں ہے: اشارہ کے بعد کی کیفیت کے متعلق عبارات فقہاء رحمهم اللہ تعالی میں "يضعها" کے الفاظ ہیں اس سے انگلی کو بالکلیہ گرا دینا مراد نہیں بلکہ قدرے جھکا دینا مراد ہے، صرح به الملا علي القاري لرواية أبي داؤد والنسائي رافعا أصبعه السبابة وقد أحناها شيئا أى أمالها. (تزيين العبارة لتحسين الإشارة لعلي القاري ص ۸) امداد الفتاوى میں اس کے متعلق مفصل بحث ہے۔ (احسن الفتاوی، ج ٣ ص ٣١، ط. ایچ ایم سعید کمپنی)
فتاوى محموديه میں ہے: "التحيات" میں "أشهد أن لا إله إلا الله" پر کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرنا سنت ہے، اس طرح کہ دو انگلیاں ہتھیلی سے ملی رہیں، بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنالیا جائے، پھر ”إلا الله" پر انگلی کے اشارہ کو ختم کر کے کچھ نیچے کو رخ کر دیا جائے اور یہ ہیئت اخیر تک باقی رہے، سب انگلیاں کھول کر نہ پھیلائی جائیں۔ فقط واللہ اعلم۔ (فتاوى محموديه، ج ٥ ص ٦٣٥، ط. دار الإفتاء جامعة فاروقیہ کراچی(
كتاب النوازل میں ہے: کلمہ شہادت پر انگلی اٹھانے کے بعد مٹھی برقرار رکھنا
الجواب وبالله التوفیق: قعدہ میں "اشہد ان لا الہ" کہتے وقت انگلی اٹھائی جائے گی، اور "الا الله " پر انگلی جھکا دی جائے گی، مگر حلقہ (مٹھی) کو اخیر نماز تک باقی رکھا جائے گا۔ (كتاب النوازل، ج ٤ ص ٧١، ط. مكتبه عزيزيه)