Question:
I have few questions on Zakaat calculation. Please help me.
1) If paid zakaat last year on a certain amount, and that amount is doubled now. Do I need to calculate zakaat on ENTIRE saving or just the increase which happened in this lunar year?
2) I have a mortgage on my house. It's more than than the amount saved. Do I consider this as debt ?
JazakAllah
Answer:
1. Zakat is calculated on the total zakatable assets you own on your zakat anniversary day, not just the increase from the previous year. Even if you paid zakat on a certain amount last year, you must include it in this year’s calculation if you still possess it. Each year, you calculate your wealth and pay 2.5% on the total amount if it reaches the nisab threshold.
2. If you have a mortgage on your house, you do not deduct the full mortgage amount when calculating zakat, as it is a long-term debt. Instead, only the portion of the mortgage that is due within the next lunar year should be deducted from your zakatable assets. If, after deducting the upcoming year’s mortgage payments, the total value of your zakatable assets—i.e. cash, gold, silver, and merchandise intended for sale—still reaches the nisab threshold, you will be required to pay zakat at a rate of 2.5%. However, if the total value of your zakatable assets is less than the nisab threshold after deducting the upcoming year’s mortgage payments, you will not be obliged to pay zakat.
Note: If you have an interest-based mortgage, you must abandon it as soon as possible and do sincere taubah. Furthermore, only the principle amount will be deducted from your zakatable assets when calculating zakat, not the interest amount.*
Sh. Ahmed Jariwala
03/03/2025
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
في الدر المحتار: (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب. أقول: إنه خرج باشتراط الحرية على أن المطلق ينصرف للكامل، ودخل ما ملك بسبب خبيث كمغصوب خلطه إذا كان له غيره منفصل عنه يوفي دينه (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد، ولو كفالة أو مؤجلا، ولو صداق زوجته المؤجل للفراق ونفقة لزمته بقضاء أو رضا.
وفي رد المحتار: (قوله: ولو كفالة)...وبعد أسطر...وقد عللوا سقوط الزكاة بالدين بأن المديون محتاج إلى هذا المال حاجة أصلية لأن قضاء الدين من الحوائج الأصلية والمال المحتاج إليه حاجة أصلية لا يكون مال الزكاة تأمل (قوله أو مؤجلا إلخ) عزاه في المعراج إلى شرح الطحاوي، وقال: وعن أبي حنيفة لا يمنع. وقال الصدر الشهيد: لا رواية فيه، ولكل من المنع وعدمه وجه. زاد القهستاني عن الجواهر: والصحيح أنه غير مانع. (الدر المختار مع رد المحتار، ج ٢ ص ٢٦٩-٢٦١، ط. سعيد)
جديد فقهي مسائل میں ہے: طویل مدتی دیون کی زکوة
سوال: سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی طرف سے آج کل ترقیاتی اور صنعتی قرضے فراہم کئے جاتے ہیں، طویل مدت میں ان کی ادائیگی مطلوب ہوتی ہے ان قرضوں کی مقدار تو بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن ہر سال ادا طلب قسط بہت معمولی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے قرضے پورے کے پورے منہا کر کے زکوۃ واجب ہوگی یا ہر سال کی مطلوبہ قسط ہی منہا کی جائے گی اور باقی پورے مال کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟
الجواب: فقہاء احناف کے عام اصول کا تقاضا تو یہی ہے کہ ایسی صورت میں پورے قرض کو منہا کیا جائے اس کے بعد جو رقم بچ جائے اس میں زکوۃ واجب ہو لیکن ایسے طویل مدتی دیون کو مستثنیٰ کرنے میں فقراء کو اپنے حق سے محروم ہونا پڑتا ہے اور صاحب مال کو ایک ایسے مال کی زکوۃ سے چھوٹ مل جاتی ہے جو اس کے تصرف میں ہے اور جس کی ادائیگی میں اسے بہت مہلت حاصل ہے، اس لئے ان حالات میں سب سے متوازن ، شریعت کی روح و مقصد سے ہم آہنگ اور معتدل رائے یہ ہے کہ ہر سال قرض کی جو قسط ادا کی جانی ہے صرف وہی مقدار زکوۃ سے مستثنی ہوگی بقیہ پورے مال میں زکوۃ ادا کی جائے گی۔ اس سلسلہ میں فقہاء کے یہاں ایک نظیر بھی موجود ہے کہ دیر سے ادا کیا جانے والا مہر (مہر مؤجل) منہا کئے بغیر پورے مال میں زکوۃ واجب ہوگی۔ چنانچہ علامہ کا سانی رحمہ اللہ تعالی نقل کرتے ہیں: وقال بعض مشائخنا إن المؤجل لا يمنع لانه غير مطالب عادة سله. ترجمة: "ہمارے بعض مشائخ کہتے ہیں کہ ادھار مہر زکوۃ کی ادائیگی کے لئے مانع نہیں کیوں کہ عام طور سے اس کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔“خود امام ابوظیفہ رحمہ اللہ تعالی سے بھی اس طرح کے اقوال منقول ہیں کہ دین مؤجل یعنی دیر سے قابل ادائیگی قرضے زکوۃ واجب ہونے میں مانع نہیں ہیں اور علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے نقل کیا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔ ) جديد فقهي مسائل، ج ١ ص ١٤٤، ط. زمزم پبلشرز)
فتاوى عثمانيه میں ہے: زکوۃ کا سبب مالِ نامی ، یعنی بڑھنے والا ایسا مال ہے جس پر مکمل سال گزر جائے۔ (فتاوى عثمانيه، ج ٣ ص ٣٠٤، ط. العصر اکیڈمی)
انسان کے ذمے جو دیون اور واجبات ہوتے ہیں، ان میں سے کون سے زکوۃ کے وجوب میں مانع ہیں اور کون سے مانع نہیں، اس سلسلے میں حنفیہ کے ہاں بنیادی اصول درج ذیل ہیں۔ ہر وہ دین یا قرض جس سے متعلق انسانوں میں سے کوئی مطالبہ کرنے والا موجود ہو تو وہ زکوۃ کے نصاب کی تکمیل میں مانع بنتا ہے۔ یہ دین یا قرض بندوں کا حق بھی ہو سکتا ہے، جیسے: قرض مبيع کی قیمت کسی جنایت یا زخم وغیرہ کا جرمانہ و تاوان، بدل خلع قتل عمد میں صلح کے بدلے واجب ہونے والا مال وغیرہ۔ مذکورہ دیون چاہے فی الحال واجب الأدا (معجل) ہوں یا تاخیر کے ساتھ (مؤجل)، اور چاہے نقود میں سے ہوں یا مکیل وموزون ہوں یا کپڑوں، حیوانات یا کسی اور جنس سے ہوں۔ (المرجع السابق، ص ٣٠٩)