Question:
The medical levy surcharge is a tax imposed if we don’t have private hospital cover. Based on the annual taxable income threshold, the ATO (Australian Taxation Office) charges a significant amount in the end-of-year tax return. Are we permitted to have such hospital cover?
Jazakallahu khairan
Answer:
The Medicare Levy Surcharge (MLS) is an additional imposed tax of 1% to 1.5% for Australian taxpayers without private hospital cover who earn over $97,000 (individuals) or $194,000 (couples/families), with the threshold increasing by $1,500 for each dependent child after the first. This surcharge is imposed on top of the standard mandatory 2% Medicare levy to fund the public healthcare system and encourage higher-income earners to obtain private health insurance.
As for hospital cover, it is a type of health insurance that helps pay for private hospital treatment, like accommodation, surgeries and medical fees, in exchange for regular premium payments. This also allows individuals to receive faster treatment and choose their own doctor and often reduces wait times.
Since Medicare levy Surcharge is a government-imposed tax for high-income earners, it is permissible to pay it. On the other hand, all conventional insurance, including health insurance and hospital cover, involves elements of riba (interest), qimar (gambling) and gharar (excessive uncertainty), all of which are explicitly prohibited in the Quran and ahadith. Therefore, it is not permissible to get hospital cover. *
Sh. Huzaifa-Ul Hoque
19/09/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
قال الله تعالى: وَاَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (سورة البقرة: ٢٧٥)
وقال أيضا: یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِنَّمَا ٱلۡخَمۡرُ وَٱلۡمَیۡسِرُ وَٱلۡأَنصَابُ وَٱلۡأَزۡلَـٰمُ رِجۡسࣱ مِّنۡ عَمَلِ ٱلشَّیۡطَـٰنِ فَٱجۡتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ (سورة المائدة: 90)
عن جابر رضي الله عنه، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربوا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، قال: هم سواء. (صحيح مسلم: باب لعن آكل الربا ومؤكله)
في المبسوط للسرخسي: والتجارة نوعان: حلال يسمى في الشرع بيعا وحرام يسمى ربا، كل واحد منهما تجارة، فإن الله أخبر عن الكفرة إنكارهم الفرق بين البيع والربا عقلا، فقال عز وجل: (ذلك بأنهم قالوا إنما البيع مثل الربا) [البقرة: 275]، ثم فرق بينهما في الحل والحرمة بقوله تعالى: (وأحل الله البيع وحرم الربا) [البقرة: 275]؛ فعرفنا أن كل واحد منهما تجارة وأن الحلال الجائز منها بيع شرعا. بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس يتعاملونه فأقرهم عليه ... وبعد أسطر ... وفي الشريعة: الربا: هو الفضل الخالي عن العوض المشروط في البيع؛ لما بينا: أن البيع الحلال مقابلة مال متقوم بمال متقوم فالفضل الخالي عن العوض إذا دخل في البيع كان ضد ما يقتضيه البيع فكان حراما شرعا، واشتراطه في البيع مفسد للبيع، كاشتراط الخمر وغيرها. والدليل على حرمة الربا: الكتاب والسنة. أما الكتاب فقوله تعالى: (وحرم الربا) [البقرة: 275] ... وبعد 3 صفحات ...وقوله: والفضل ربا، يحتمل الفضل في القدر، ويحتمل الفضل في الحال، بأن يكون أحدهما نقدا والآخر نسيئة. وكل واحد منهما مراد باللفظ وقوله: ربا أي حرام، أي: فضل خال عن العوض والمقابلة إما متيقنا به عند فضل القدر أو موهوم الوجود عادة لتفاوت بين النقدين والنسبة في المالية. (المبسوط للسرخسي: ج ١٢، ص 130-126، كتاب البيوع، أنواع الربا، ط. دار الكتب العلمية)
في الدر المختار: باب الربا: (هو) ... (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة ... (خال عن عوض) ... (بمعيار شرعي) ... (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر ... (في المعاوضة) (الدر المختار: ج 5، ص 170-168، كتاب البيوع، باب الربا، ط. سعيد)
في رد المحتار: القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، (رد المحتار: ج 6، ص 403، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ط. سعيد)
كتاب النوازل: میڈیکل انشورنش کا شرعی حکم ؟ سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میڈیکل انشورنش جو کہ غیر ممالک میں جانے کے لئے ضروری ہے، بطور خاص خلیجی ممالک میں جو لوگ ملازمت کے لئے جاتے ہیں، ان کو میڈیکل انشورنش کروانا حکومت کی جانب سے لازمی قرار دیا گیا ہے، آیا از روئے شرع درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو ایسی صورت میں شرعاً کیا تدبیر اختیار کی جائے؟ جب کہ حکومت کی طرف سے ایسا کرنا لازم ہے.
الجواب وبالله التوفیق: میڈیکل انشورنش اصلا ناجائز ہے، لیکن جہاں قانونی مجبوری ہو، تو اس کی گنجائش ہے.
وقال الله تعالى: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالازْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ) [المائدة: ٩٠] الضرورات تبيح المحظورات [شرح المجلة ٢٩ رقم المادة: ٢١، الأشباه والنظائر/القاعدة الخامسة ٨٧] (كتاب النوازل: ج ١١، ص ٤٥٩، ط. مكتبة عزيزية)
في فتاوى محمودية: سوال: موجودہ زمانہ میں بیمہ کرانا اپنا، یا دوکان اور موٹر وغیرہ کا کیسا ہے؟
الجواب حامداً ومصلياً: بیمہ میں سود بھی ہے، اور جوا بھی، یہ دونوں چیزیں ممنوع ہیں، بیمہ بھی ممنوع ہے لیکن اگر کوئی تھی ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بغیر بیمہ کرائے جان ومال کی حفاظت ہی نہ ہوسکتی ہو، یا قانونی مجبوری ہو تو بیمه کرانا درست ہے (فتاوى محمودية: ج ١٦، ص ٣٨٨-٣٨٧، كتاب البيوع، باب الربا، ط. إدارة الفاروق)
فتاوى عثماني: سوال: کیا انشورنس جائز ہے؟ مثلاً زندگی، گھر، مال وغیرہ کا
جواب: انشورنس سود اور قمار پر مشتمل ہونے کی بناء پر بالکل حرام ہے، البتہ جو انشورنس حکومت کی طرف سے لازمی ہو، مثلاً موٹر وغیرہ کا بیمہ، اس کو مجبوراً کرا سکتے ہیں، مگر جب رقم ملے تو صرف اتنی رقم خود استعمال کر سکتے ہیں جتنی خود داخل کی تھی، اس سے زائد نہیں. (فتاوى عثماني: ج ٣، ص ٣١٤، كتاب الربا والقمار، فصل في القمار والتأمين، ط. مكتبة معارف القرآن)
وفيه أيضا: سوال 1: انشورنس جائز ہے یا نہیں؟
جواب: انشورنس کی جتنی صورتیں فی زماننا رائج ہیں، سب ناجائز ہیں، کیونکہ وہ سب سود اور قمار پرمشتمل ہیں.
سوال ۳: اپنے فتویٰ میں قرآنی آیات یا احادیث جس سے استنباط کیا گیا ہو؟
جواب: ربا اور قمار کی حرمت کی تمام آیات واحادیث، انشورنس کے حرام ہونے کی دلیل ہیں (فتاوى عثماني: ج ٣، ص 329-328، كتاب الربا والقمار، فصل في القمار والتأمين، ط. مكتبة معارف القرآن)
في امداد المفتين: زندگی کا بیمہ کرانا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: زندگی وغیرہ کا بیمہ مروجہ شرعاً جائز نہیں کیونکہ اس میں سود بھی ہے اور قمار بھی۔ اور یہ دونوں چیزیں حرام ہیں۔ بقوله تعالى إنما الخمر والميسر والأنصاب والازلام الآية. وأحل الله البيع وحرم الربوا الآية. (امداد المفتين: ج 2، ص ٧٠٧، كتاب الربا والقمار، ط. دار الإشاعت)
فتاوى قاسمية: سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ ہندوستان کے پر خطر ماحول اور آئے دن فسادات کی وجہ سے ہر وقت مسلمانوں کی جان ومال کا خطرہ لاحق رہتا ہے، تو کیا اس ماحول کے پیش نظر جان کا بيمه کرانا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب وبالله التوفيق: جان کا بیمہ قطعا ناجائز اور حرام ہے، خواہ جیون بيمه فسادات کے اندیشہ سے کیا جائے یا کسی اور دوسری وجہ سے؛ اس لئے کہ یہ سود، قمار، اور رشوت پر مشتمل ہے، جو سراسر ناجائز وحرام ہے. (فتاوى قاسمية: ج ٢٠، ص ٤٤٥، كتاب الربا، بيمه كے احكام، ط. دار الإشاعت)
https://www.canstar.com.au/health-insurance/what-is-hospital-cover/