Question:
However, I am now uncertain if the boy is still in kufu with me, as he is not as religious as before. Additionally, I have completed one year in a B PHARM + MBA dual degree program before leaving the college, while the boy has just enrolled in an online BBA degree program. Given these changes, I am unsure if the boy still meets the criteria of kufu.
Will the nikah be considered valid if we proceed, given the current circumstances? After obtaining talaq, can I marry someone else? Additionally, is kufu assessed superficially or in depth?
Jazakallah Khair.
Answer:
Once the nikah is renewed, the husband may choose to end the marriage by giving talaq. If he takes this step, the wife can marry another man only after completing her iddah period. In short, the wife cannot pursue a new marriage just because she became an apostate, as her existing marriage with her husband remains intact.
Lastly, it is crucial to be extremely careful with one’s words. Uttering a statement of kufr is an extremely heinous act, as one loses their iman instantly. If someone dies in this state, they will face eternal punishment in Jahannam. May Allah protect us all. Make sincere tawba for committing such a grave sin and seek Allah Ta’ala’s forgiveness. *
Sh. Anas Ahsan
21/05/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
قال في الدر: وتجبر على الإسلام وعلى تجديد النكاح زجرا لها بمهر يسير كدينار وعليه الفتوى، "والوالجية". وأفتى مشايخ بلخ بعدم الفرقة بردتها زجرا وتيسيرا لا سيما التي تقع في المكفر ثم تنكر، قال في النهر: والإفتاء بهذا أولى من الإفتاء بما في النوادر لكن قال المصنف: ومن تصفح أحوال نساء زماننا وما يقع منهن من موجبات الردة مكررا في كل يوم لم يتوقف في الإفتاء برواية النوادر. قلت: وقد بسطت في القنية والمجتبى والفتح والبحر: وحاصلها أنها بالردة تسترق وتكون فيئا للمسلمين عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، ويشتريها الزوج من الإمام أو يصرفها إليه لو مصرفا. ولو استولى عليها الزوج بعد الردة ملكها وله بيعها ما لم تكن ولدت منه فتكون كأم الولد.
قال الشامي: (قوله وعلى تجديد النكاح) فلكل قاض أن يجدده بمهر يسير ولو بدينار رضيت أم لا وتمنع من التزوج بغيره بعد إسلامها. ولا يخفى أن محله ما إذا طلب الزوج ذلك، أما لو سكت أو تركه صريحا فإنها لا تجبر وتزوج من غيره لأنه ترك حقه بحر ونهر (قوله زجرا لها) عبارة البحر حسما لباب المعصية والحيلة للخلاص منه اهـ ولا يلزم من هذا أن يكون الجبر على تجديد النكاح مقصورا على ما إذا ارتدت لأجل الخلاص منه، بل قالوا ذلك سدا لهذا الباب من أصله سواء تعمدت الحيلة أم لا كي لا تجعل ذلك حيلة (قوله قال في النهر إلخ) عبارته: ولا يخفى أن الإفتاء بما اختاره بعض أئمة بلخ أولى من الإفتاء بما في النوادر. ولقد شاهدنا من المشاق في تجديدها فضلا عن جبره بالضرب ونحوه ما لا يعد ولا يحد. وقد كان بعض مشايخنا من علماء العجم ابتلي بامرأة تقع فيما يوجب الكفر كثيرا ثم تنكر وعن التجديد تأبى، ومن القواعد: المشقة تجلب التيسير والله الميسر لكل عسير. اهـ (حاشية ابن عابدين – باب نكاح الكافر: 8/648 ط. دار السلام)
في الحيلة الناجزة:
حاصل یہ ہے کہ عورت اگر مرتد ہو جائے تو اس کے نکاح کے بارے میں حنفیہ کے تین قول ہوئے۔
ایک: یہ کہ نکاح فسخ ہو جاتا ہے لیکن بعد تجدید اسلام اس کو تجدید نکاح پر مجبور کیا جائے گا کسی دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار نہ دیا جائے گا ( وهو ظاهر الرواية)
دوسرا : یہ کہ نکاح فسخ ہی نہ ہوگا بلکہ وہ دونوں بدستور زن و شوہر ہیں گے۔ (وهو قول مشائخ بلخ وسمرقند)
تیسرا: یہ کہ عورت کو کنیز بنا کر رکھا جائے گا۔ (نوادر الراية)
اب ہندوستان میں بحالت موجودہ اس متفق علیہ حکم پر عمل کرنا پہلی روایت کو اختیار کرتے ہوئے غیر ممکن ہے کیوں کہ فسخ نکاح کا حکم دے دینے کے بعد پھر تجدید نکاح پر مجبور کرنے والی کوئی قوت مسلمانوں کے پاس موجود نہیں اور جہاں موجود ہوتی ہے وہاں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جیسا کہ شامی کی عبارت مندرجہ نمبر ۵ میں بیان کیا گیا ہے اس لیے پہلے قول یعنی ظاہر الروایہ پر عمل کرنا ہندوستان میں بحالت موجودہ غیر ممکن ہو گیا کیوں کہ اس کے ایک جز پر عمل کرنا اگر چہ اختیار میں ہے لیکن دوسرا جز یعنی تجدید اسلام اور تجدید نکاح پر مجبور کرنا قطعاً اختیار میں نہیں ۔ اور نوادر کی روایت پر عمل کرنا تو ظاہر الروایہ سے بھی زیادہ مشکل بلکہ بحالت موجودہ غیر ممکن ہے۔
اس لیے اب بجز اس کے کہ مشائخ بلخ و سمرقند کے قول کو اختیار کر کے اس پر فتوی دیا جائے کوئی چارہ نہ رہا۔
اس مجموعہ سے خلاصہ اس فتویٰ کا یہ حاصل ہوا کہ عورت بدستور سابق اس خاوند کے قبضہ میں رہے گی کسی دوسرے شخص سے ہرگز نکاح جائز نہیں۔ لیکن جب تک تجدید اسلام کر کے تجدید نکاح نہ کرے اس وقت تک اس کے ساتھ جماع اور دوائی جماع کو جائز نہ کہا جائے گا۔ (حيلة ناجزة لأشرف علي تهانوي: ص. 111-120)
فتاوى محمودية:
صورت مسئولہ میں احناف کی کئی روایتیں ہیں ، اس زمانہ میں جو مفتی بہ ہے وہ یہ ہے کہ عورت کا نکاح اس حرکت سے فسخ نہیں ہوا بلکہ وہ بدستور شو ہر سابق کے نکاح میں باقی ہے، چاہے کتنا ہی زمانہ گزر جائے اس کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں۔ البتہ شوہر کو اس سے استمتاع ہی منع ہے، جب وہ تجدید اسلام کرلے تو احتیاطا تجدید نکاح بھی کرلے، اس کے بعد استمتاع جائز ہو جائے گا ، اگر سابق شوہر اس کو نہ رکھنا چاہے، بلکہ آزاد کر دے تو اس کو دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہوگا اور جب تک سابق شوہر آزاد نہ کر دے تو اگر دوسری جگہ نکاح بھی کر دیا تو درست نہیں، بلکہ غیر معتبر اور کالعدم ہے، حیلہ ناجزہ میں اس کی تفصیل موجود ہے. ((فتاوى محمودية: 2/567 ط. لإدارة الفاروق)
صورت مسئولہ میں مسماۃ مذکور کے لئے جائز نہیں کہ علاوہ شوہر سابق کے کسی اور سے نکاح کریں، بلکہ اگر شوہر اول اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہے تو شرعاً عورت پر جبر کیا جاوے گا ، شو ہر اول سے نکاح اول کی تجدید کرے۔ شوہر سابق کو شرعا حق حاصل ہے کہ مسماۃ مذکورہ کا عبد اللہ سے مطالبہ کرے اگر اس کے نکاح سے راضی نہیں ہے، اگر اس کے نکاح سے راضی ہے اور خود تعلق زوجیت کو ختم کر چکا تو مطالبہ کافی نہیں۔ شوهر سابق اگر راضی نہیں عورت کے اس نکاح ثانی سے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوا، لیکن اگر شوہر سابق عورت کے اس نکاح ثانی سے راضی ہے، تو یہ صحیح ہے. (فتاوى محمودية – ما يتعلق بأحكام المرتدين: 2/566 ط. لإدارة الفاروق)
احسن الفتاوى:
اس بارہ میں تین روایات ہیں :
ا) عورت کا نکاح ٹوٹ گیا اور وہ باندی بن جائے گی ، اس کا شوہر اسے امام وقت سے خرید کر اپنے پاس رکھ سکتا ہے ، اگر شوہر مصرف ہو تو امام اسے مفت بھی دے سکتا ہے ۔
ب) اس کا نکاح ٹوٹ گیا مگر کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی بلکہ سےتجدید اسلام اور پہلے ہی شوہر سے تجدید نکاح پر مجبور کیا جائے گا
ت) اس کا نکاح نہیں ٹوٹا ، اسی شوہر کے نکاح میں بدستور رہے گی
اس زمانہ میں پہلی دو صورتیں ممکن نہیں ، صورت اولی کا عدم امکان تو ظاہر ہے، حکومت سے صورت ثانیہ پر عمل کرنے کی بھی کوئی توقع نہیں ، لہذا فتویٰ کے لئے صورت ثالثہ ہی متعین ہے ، یعنی عورت کے ارتداد سے اس کا نکاح نہیں ٹوٹتا مگر تجدید اسلام سے قبل اس سے استمتاع جائز نہیں ، کالموطوءة بالشبهة والحامل من الزنا، بلکہ تجدید اسلام کے بعد تجدید نکاح بھی ضروری ہے ، اس لئے کہ روایت ثانیہ ظاہر الروایہ ہے اس خاص جزء میں اس سے عدول کی کوئی ضرورت نہیں ، لہٰذا تجدید اسلام کے بعد بھی تجدید نکاح سے قبل استمتاع حرام ہے ۔ (احسن الفتاوى – باب المرتد والبغاة: 6/362 ط.إيج إيم سعيد)