Question:
I need to inquire about a loan I took 20 years ago. I am now in a position to repay it, but I need some clarification. The loan was taken in dinars in 2004, and I would like to repay it in Indian rupees. Should I use the conversion rate from 2004 or the current rate from 2024? Please advise.
JazakAllah Khair.
Answer:
You must repay the loan as per the current conversion rate of 2024, as it is compulsory to repay the exact amount of dinar you borrowed. Converting this amount to Indian rupees is a separate matter and must be based on the conversion rate in effect on the day of repayment. *
Sh. Huzaifa-Ul Hoque
20/02/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
في رد المحتار: إن الديون تقضى بأمثالها (رد المحتار: ج 3، ص 789/840، ط. سعيد)
وفيه كذلك: فصل في القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة. (رد المحتار: ج 5، ص 161، ط. سعيد)
وفيه كذلك: عند أبي يوسف تجب قيمتها يوم القبض أيضا، وعليه الفتوى كما في البزازية والذخيرة والخلاصة (رد المحتار: ج 5، ص 163، ط. سعيد)
وفيه كذلك: وجد دنانير مديونه وله عليه درهم له أن يأخذه لاتحادهما جنسا في الثمنية اهـ ومثله في شرح تلخيص الجامع الكبير للفارسي في باب اليمين في المساومة. قال الحموي في شرح الكنز نقلا عن العلامة المقدسي عن جده الأشقر عن شرح القدوري للأخصب: إن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق، والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم العقوق. (رد المحتار: ج 6، ص 151، ط. سعيد)
وفي حاشية الطحطاوي على الدر المختار: قال الحموي في شرحه نقلا عن العلامة المقدسي عن جده الأشقر عن شرح القدوري لِلْأَخْصَبِ: إن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي: مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم العقوق. (حاشية الطحطاوي على الدر المختار: ج ١٠، ص ٣٢٣، ط. دار الكتب العلمية)
في الدر المختار: وكان عليه مثل ما قبض. (الدر المختار: ج 5، ص 165، ط. سعيد)
في بدائع الصنائع: ولو استقرض فلوسا نافقة، وقبضها فكسدت فعليه رد مثل ما قبض من الفلوس عددا في قول أبي حنيفة وأبي يوسف (وجه) قولهما أن الواجب بقبض القرض رد مثل المقبوض وبالكساد عجز عن رد المثل لخروجها عن رد الثمنية، وصيرورتها سلعة فيجب عليه قيمتها، كما لو استقرض شيئا من ذوات الأمثال، وقبضه ثم انقطع عن أيدي الناس، ولأبي حنيفة - رحمه الله - أن أثر الكساد في بطلان الثمنية، وأنه لا يمنع جواز الرد بدليل أنه لو استقرضها بعد الكساد جاز ثم اختلفا في وقت اعتبار القيمة على ما ذكرنا، ولو لم تكسد، ولكنها رخصت أو غلت فعليه رد مثل ما قبض بلا خلاف لما ذكرنا أن صفة الثمنية باقية. (بدائع الصنائع: ج 7، ص 234، ط. دار الكتب العلمية)
في كتاب المبسوط: وإذا اشترى الرجل فلوسا بدراهم ونقد الثمن، ولم تكن الفلوس عند البائع فالبيع جائز؛ لأن الفلوس الرابحة ثمن كالنقود، وقد بينا أن حكم العقد في الثمن وجوبها ووجودها معا، ولا يشترط قيامها في ملك بائعها لصحة العقد كما يشترط ذلك في الدراهم والدنانير. (كتاب المبسوط للسرخسي: ج 14، ص 32، ط. دار الكتب العلمية)
في أحسن الفتاوى:
سوال: زید نے بکر کے پاس سو روپے کے عوض اپنی زمین رہن رکھی، اور یہ اس وقت کی بات ہے جب روپے چاندی کے تھے، اب تقریباً ٢٠ سال بعد پاکستان میں اس سکے کا رواج نہیں رہا، پاکستانی جدید روپیہ رائج ہے، اب راہن مرتہن دونوں فک رہن پر راضی ہو گئے لیکن مرتہن کا مطالبہ ہے کہ مجھے چاندی کا روپیہ ہی دیاجائے یا اس کی قیمت ادا کی جائے، اور راہن کہتا ہے کہ میں پاکستانی سو روپے ہی دونگا، ان میں شرعی فیصلہ کیا ہوگا؟ بینوا توجروا
الجواب باسم ملهم الصواب: یہ معاملہ قرض کا ہے اور قرض میں شیء مقروض کی مثل ادا کرنا واجب ہوتا ہے، چاندی چونکہ باعتبار خلقت ثمن ہے، لہذا ترک تعامل کے باوجود اس کی ثمنیت کا سد نہیں ہو سکتی لہذا اس کی مثل یعنی سو تولے چاندی ہی دینا پڑے گی ۔ (أحسن الفتاوى: ج ٧، ص ١٧٥، ط. سعيد)
في فتاوى قاسمية:
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذيل کے بارے میں: زید نے بکر کو پانچ ماہ کے لئے قرض کے طور پر امریکی سوڈالردئے، جس کی قیمت اس وقت ہندوستانی ٤٥٠٠ روپے تھی، پانچ ماہ کی مدت گذر نے کے بعد اسی سوڈالرکی قیمت مزید دوسوروپے ہوگئی ہے، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا قرض کی ادائے گی میں وہی سوڈالر دیا جائے یا ہندوستانی ٤٥٠٠ روپئے دیا جائے؟ اور اگر سوڈالر دیا جائے تو زید کے لئے مزید دو سوروپئے "کل قرض جر نفعا فہو ربا" کی بنا پر سود میں داخل تو نہ ہو گا؟
الجواب وبالله التوفیق: زید وبکر کے درمیان معاملہ ڈالر پر ہوا ہے؛ اس لئے جس وقت بھی قرض ادا کرے گا ڈالر ہی ادا کرنا لازم ہوگا، اس کی قیمت چاہے گھٹ جائے چاہے بڑھ جائے ۔ اور اگر ڈالر کی جگہ ہندوستانی روپئے ادا کرے گا تو ادائے گی کے وقت کی قیمت کا اعتبار ہے؛ لہذا پانچ ماہ کے بعد کرنسی میں جب دو سوروپے کا اضافہ ہو گیا ہے، تو اس کو دو سو روپے کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔ اور یہ سود نہ ہوگا ... وقال عليه قيمتها من الدراهم يوم وقع القبض الخ وقوله: يوم وقع القبض، أي في صورة القرض كما نبه عليه في النهر. (رسائل ابن عابدين) وفيه كذلك: قال القاضي: الفتوى في المهر والقرض على قول أبي يوسف. (فتاوى قاسمية: ج 21، ص ١٤٠-١٣٩، ط. دار الإشاعت)
في فتاوى محمودية:
سوال: یوسف کا قرض بشیر پر ہے، غالبا اب سے چودہ پندرہ سال ہوئے اب تک قرض ادا نہ کر سکا، اب دیتا ہے۔ یوسف کہتا ہے کہ جس سال میں نے قرض دیا تھا اس وقت چاندی کا بھاؤ دو یا ڈھائی رد پہ تولہ تھا اب تو میں اتنی چاندی کے نوٹ لوں گا کم نہیں لے سکتا۔ یہ خیال محمد یوسف کا درست ہے یا نہیں؟ ٢... زید کا قرض بکر پر اس زمانے کا آتا ہے جس زمانے میں چاندی کا روپیہ چلتا تھا، یا اس کا نوٹ تھا، اب بکر ادا کرنا چاہتا ہے لیکن زید کہتا ہے کہ میں نے تو چاندی کے روپے دیئے تھے، یا تو رو پے لاؤ چاندی کے یا اتنی چاندی کے نوٹ لاؤ، ورنہ میں نہیں لیتا۔ زید کا یہ خیال کیسا ہے؟ ٣... ایک شخص اپنا قرض لینا نہیں چاہتا، قرضدار چاہتا ہے کہ دنیا ہی میں دیدے تا کہ قیامت کے دن دینا نہ پڑے، رسوائی نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے، کیسے ادا کرے؟
الجواب حامداً ومصلياً: 1. اب سے ١٥.١٤/ برس پہلے قرض جتنے نوٹ لئے تھے اتنے ہی نوٹ واپس کرنے کا حکم ہے، چاندی کا بھاؤ تیز ہو جانے کی وجہ سے قرض کے نوٹ زیادہ لینا درست نہیں ۔ اگر چاندی کے روپے قرض دیئے تھے تو اتنی چاندی یا اس کی قیمت واپس کی جائے ۔ جس سے جو قرض لیا تھا، اب وہ واپس لینا نہیں چاہتا تو وہ معاف کر دے۔ اگر نہ واپس لیتا ہے اور نہ معاف کرتا ہے تو مقدار قرض اس کے سامنے رکھ دی جائے، پھر اس کا جو دل چاہے کرے، یہ بری ہو جائے گا – وتحته في الحاشية: والذي يتحقق من النظر في دلائل القرآن والسنة ومشاهدة معاملات الناس أن المثلية المطلوبة في القرض هي المثلية في المقدار والكمية، دون المثلية في القيمة والمالية. (بحوث بحوث في قضايا فقهية معاصرة، ص: 174، دار العلوم کراچی، وكذا في الفتاوى العالمكيرية: ۳۶۶/۵، كتاب الكراهية، الباب السابع والعشرون في القرض والدین، رشيديه) - "رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها، ثم غلا سعرها، فهل عليه ردها مثلها؟ الجواب: نعم، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها (تنقيح الفتاوى الحامدية، باب القرض: 294/۱، رشیدیة، وكذا في رسائل ابن عابدين، تنبيه الرقود على مسائل النقود: ۶۴/۲، سهیل اکیڈمی لاهور) - سئلت عن رجل أقرض آخر مقداراً من الريال المحيدى وقت رواجه بثلاثين قرشاً، ثم رد المستقرض له مثل المقدار الذي استقرضه منه بعد أن نزل إلى عشرين قرشاً، فامتنع المقرض من قبوله وطلب منه صرفها على سعر ثلاثين قرشاً، فهل ليس له ذلك؟ فالجواب أنه ليس له الامتناع من قبول مثل ما دفع.. وفي نتيجة الفتاوى مانصه والمقبوض على وجه القرض مضمون بمثله. وفيها نقلاً عن جامع الفصولين والواجب في القرض رد المثل (الفتاوى الكاملية، ص ۹۲، باب القرض، مطلب الواجب في القرض رد المثل، مكتبه حقانیة) (فتاوى محمودية: ج ١٦، ص ٤٠٧-٤٠٥، ط. إدارة الفاروق)
في فتاوى دار العلوم زكريا:
سوال: ایک شخص نے دوسرے شخص کو ایک لاکھ ریند کا قرض ایک سال کی مہلت پر دیا، پھر اگر وہ مقروض ہے یہ کہدے کہ ایک سال کے بعد آپ مجھے ریند کی جگہ ۱۵ ہزارڈالر دو گے، تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: بصورت مسئولہ دائن کا مدیون سے یہ کہنا کہ ایک لاکھ ریند قرض کے عوض ایک سال بعد ۱۵ ہزار ڈالر واپس کر دے، اور ایک لاکھ ریند اسی مجلس میں ادا بھی کر دیئے تو یہ معاملہ جائز اور درست ہے۔ اس میں ربا وغیرہ کا کوئی تحقیق نہ ہوگا کیونکہ کرنسی ثمن خلقی نہیں بلکہ ثمن عرفی ہے، نیز مختلف ممالک کی کرنسی مختلف الجنس کہلاتی ہے، لہذا تقابض فی انجلس ضروری نہیں نسیئہ بھی جائز ہے، ہاں ایک کرنسی پر قبضہ ضروری ہے تا کہ بیچ الکالی بالکالی لازم نہ آئے۔ ملاحظہ ہو فقہی مقالات میں ہے: تاجروں اور عام لوگوں میں اس کا رواج ہے کہ وہ ایک ملک کی کرنسی دوسرے شخص کو اس شرط پر دے دیتے ہیں کہ تم اس کے بدلے میں اتنی مدت کے بعد فلاں ملک کی کرنسی فلاں جگہ پر دینا، امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ معاملہ جائز ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک اثمان کی بیچ میں بیع کے وقت شمن کا عقد کرنے والے کی ملکیت میں ہونا شرط نہیں لہذا جب جنسین مختلف ہوں تو ادھار کرنا جائز ہے، ... جدید معاملات کے شرعی احکام میں ہے: دو ملکوں کی کرنسی چونکہ مختلف الا جناس میں داخل ہیں اسی وجہ سے ان کے نام کی اکائیاں وغیرہ مختلف ہوتی ہیں ، جب دونوں کی جنس مختلف ہے تو ایک ملک کی کرنسی کو دوسرے ملک کی کرنسی سے کمی زیادتی کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے اور اس کا کاروبار کرنا بھی جائز ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ مجلس عقد میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک فریق کا متبادل کرنسی پر قبضہ ہو جائے ، اگر کسی ایک فریق کا بھی مجلس عقد میں متبادل کرنسی پر قبضہ نہ ہوا بلکہ معاملہ کر کے دونوں فریق بعد میں ادائیگی کے وعدہ پر جدا ہو گئے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اس میں افتراق دین بدین لازم آتا ہے جو کہ حدیث کی رو سے ممنوع ہے (جديد معاملات کے شرعی احکام: ۱۳۹/۱) جدید معاملات کے شرعی احکام میں ہے قرض کے جواز کے لیے مثالی ہونا شرط ہے، جن چیزوں کے مثل نہ ہو ان کو قرض کے طور پر دینا بھی جائز نہیں، کیونکہ قرض میں جو چیز لی گئی ہے اس کی مثل واپس کرنا شر عا لازم ہے۔ قال العلامة الصابوني ونص الفقهاء على أن قرض المكيل والموزون جائز، كاستقراض الحب والشعير، والتمر والزبيب وكالاستقراض السمن والزيت، وكل ما يكال ويوزن، وأما مالا مثل له فلا يجوز إقراضه كاللآلى، والجوهرات، وهذا مذهب أبي حنيفة وأجاز الشافعية والحنابلة إقراض مالا مثله له إذا كان معروف القيمة، فيجب رد القيمة. (فقه المعاملات)
حاصل یہ ہے کہ مکیلی اور موزونی چیز کی مثل موجود ہوتے ہوئے ان کو قرض دینا جائز ہے اور جو چیز میں غیر مثلی ہیں، جن کو ذوات القیم کہا جاتا ہے ان کو قرض کے طور پر دینا جائز نہیں، البتہ دراهم ودنا نیر اور دیگر کرنی کو قرض کے طور پر دینا بھی جائز ہے کیونکہ ہر ملک کی کرنسی اس ملک کے اندر ذوات الامثال ہے ۔ (جدید معاملات کے شرعی احکام: ۱۸۳/۱) (فتاوى دار العلوم زكريا: ج ٥، ص ٤٩٢-٤٩٠، ط. زمزم ببلشرز)