Question:
Answer:
In the inquired scenario, if the ‘white stuff’ on your underwear resembles wool or cotton, there is no need to change your clothes. However, if upon waking up you notice something in your underwear that resembles fresh or dried liquid, then the various scenarios in which one will be obliged to perform ghusl and to wash off the impurities are detailed in the following fatwa:
https://www.fatwa.org.au/mazi-wadi-wetness-on-clothes.html
Regarding your concern about waswasa, according to Shari’ah, one is considered in a state of purity unless he is absolutely certain of being impure. Therefore, do not give heed to baseless waswasa as it is a tactic of shaytan to create hardship and distraction in your worship.
Finally, concerning your struggles with sexual thoughts, it is natural to have these thoughts, but one must not entertain them as they will lead to sin. The solution is to hasten to get married if you are not married already, especially in these times when sin is prevalent. Also, one should do the following to protect himself from these thoughts which will potentially lead one to fall into sin:
• Lower your gaze and avoid looking at anything that may trigger such thoughts.
• Recite (أعوذ بالله من الشيطان الرجيم) whenever these thoughts occur.
• Engage in dhikr (remembrance of Allah Ta’ala).
• Regularly fast.
• Keep busy with beneficial activities such as physical exercise.*
Sh. Ahmed Jariwala
19/08/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
في الهداية: والمعاني الموجبة للغسل: إنزال المني على وجه الدفق والشهوة من الرجل والمرأة حالة النوم واليقظة. (الهداية شرح بداية المبتدي، ج ١ ص ٧١، ط. مكتبة البشرى)
وفيه أيضا: وليس في المذي والودي غسل، وفيهما الوضوء. (الهداية شرح بداية المبتدي، ج ١ ص ٧٤، ط. مكتبة البشرى)
في الفتاوى الهندية: (الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل وهي ثلاثة) منها الجنابة وهي تثبت بسببين أحدهما خروج المني على وجه الدفق والشهوة من غير إيلاج باللمس أو النظر أو الاحتلام أو الاستمناء. (الفتاوى الهندية، ج ١ ص ٢٦، ط. مكتبة رشيدية)
وفيه أيضا: وإذا استيقظ الرجل ووجد على فراشه أو فخذه بللا وهو يتذكر احتلامًا إن تيقن أنه مني أو تيقن أنه مذي أو شك أنه مني أو مذي، فعليه الغسل. وإن تيقن أنه ودي، فلا غسل عليه. وإن رأى بللاً إلا أنه لم يتذكر الاحتلام، فإن تيقن أنه ودي لا يجب الغسل، وإن تيقن أنه مني، يجب الغسل. وإن تيقن أنه مذي، لا يجب الغسل وإن شك أنه مني أو مذي، قال أبو يوسف: لا يجب الغسل حتى يتيقن بالاحتلام. (الفتاوى الهندية، ج ١ ص ٢٧، ط. مكتبة رشيدية)
فتاوى عثمانية میں ہے: نجاست غلیظہ کا حکم اور اس کی قسمیں:
نجاست غلیظہ کا حکم (حکم سے تعریف بھی معلوم ہو رہی ہے) یہ ہے کہ اگر یہ بدن یا کپڑے وغیرہ کو لگ جائے تو ٹھوس جسم رکھنے کی صورت میں ایک درہم کے وزن ( یعنی ساڑھے چار ماشہ یا ٤.٣٧٤ گرام) کے بقدر معاف ہے، جب کہ ٹھوس نہ ہونے کی صورت میں ایک درہم کی مساحت یعنی ہتھیلی کے درمیان کی چوڑائی کے بقدر حصہ معاف ہے، اگر اس سے زیادہ ہو جائے اور دور کرنے پر قدرت ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں۔ نجاست غلیظہ کی قسمیں درج ذیل ہیں :انسانی بدن سے نکلنے والا کوئی بھی خون (حیض ، نفاس اور استحاضہ کی صورت میں ہو یا کسی اور عضو سے خارج ہونے والا ہو)، پیشاب (اگر چہ نو مولود یا شیر خوار بچے کا ہو)، پاخانہ منی مذی، ودی، زخم ، دانہ یا پھوڑے پھنسی سے نکلنے والا پیپ یا خون وغیرہ، منہ بھر کے قی، حرام جانوروں کے بول و براز ، زمین پر چلنے والے تمام پرندوں کی بیٹ، دم مسفوح (یعنی بہنے والا خون) خشکی کے مردہ اور مردار جانوروں کا گوشت، خنزیر اور کتے کا جوٹھا اور شراب وغیرہ حنفیہ کے ہاں نجاست غلیظہ کی قسمیں ہیں۔ (فتاوى عثمانية، ج ١ ص ٢٥٦، ط. العصر اکیڈمی(
أحسن الفتاوى میں ہے: نجاست غلیظہ کی قدر عفو کی تحقیق :
سوال: قمیص کی آستین پر چار پانچ چھینٹیں گندے پانی کی یا پیشاب کی یا اور کسی نجاست کی لگ گئیں اور بھولکر اسی قمیص سے نماز پڑھ لی تو نماز ہو گئی یا اعادہ واجب ہے بینوا توجروا.
الجواب باسم ملهم الصواب: اگر نجاست دلدار ہو جیسے گوبر وغیرہ تو چھینٹوں کے مجموعہ کا وزن بقدر ایک مثقال = ۵ ماشہ = ٤.٨٦ گرام ہو یا اس سے کم ہو تو نماز ہو جائے گی پھیلاؤ میں خواہ کتنا ہی زیادہ ہو، اور اگر تلپی نجاست ہو مثلا نجس پانی یا پیشاب وغیرہ تو پھیلاؤ میں ہتھیلی کے گھراؤ کے برابر معاف ہے۔ حضرات فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے ہتھیلی کے گھراؤ کی وسعت معلوم کرنے کے لئے یہ طریقے لکھا ہے کہ چلو میں پانی بھر کر ہتھیلی کو پھیلا دیا جائے، جتنی جگہ میں پانی ٹھہرا ر ہے اتنی وسعت مرادی اکابر نے اسکی مقدار ایک روپے کے برابر تحریر فرمائی ہے، مگر آجکل دھات کا روپیہ بالکل غائب ہو چکا ہے اور تھیلی کی پیمائش آسان نہیں اسلئے اسکی پیمائش کو ضبط کرنے کی ضرورت محسوس کر کے بندہ نے بطریق مذکور متعدد بار احتیاط سے پیمائش کی تو قطر = ١.١ اینچ = ۲.۷۵ سینٹی میٹر ہوا، اسکے بعد اتفاق سے ایک روپیہ دھات کا مل گیا تو اسکا قطر بھی اسکے مطابق پایا۔ لہٰذا اس کی كل پیمائش مربع ١/٢ قطر xپائی = ٠.٩٥ اینچ = ٥.٩٤ سینٹی میٹر ہوئی۔ فقط واللہ تعالی اعلم۔ )أحسن الفتاوى، ج ٢ ص ٨٩، ط. ایچ ایم سعید کمپنی)