Question:
Answer:
Note: If a woman’s hair grows beyond her posterior and as a result is perceived as a flaw, in such a case, some scholars have permitted the trimming of the excess hair that extends below the posterior. Additionally, if the tips of the hair split and prevent further growth, she may slightly trim the ends of the hair to restore the hair growth.*
Sh. Ahmed Jariwala
08/08/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
الأشباه والنظائر: لا يجوز للمرأة قطع شعرها ولو بإذن الزوج. وفيه: وتمنع عن حلق رأسها. قال العلامة الحموي: أي حلق شعر رأسها إزالته سواء كان بحلق أو قص، أو نتف أو نورة، فليحرر، والمراد بعدم الجواز كراهية تحريم، لما في مفتاح السعادة، ولو حلقت فإن فعلت ذلك تشبها بالرجال فهو مكروه، لأنها ملعونة. (شرح الحموي على الأشباه والنظائر لابن نجيم، ج ٣ ص ٦٦، ط. رشيدية)
في الدر المختار: وفيه: قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت زاد في البزازية وإن بإذن الزوج لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، ولذا يحرم على الرجل قطع لحيته، والمعنى المؤثر التشبه بالرجال اهـ. (الدر المختار، ج ٦ ص ٤٠٧، ط. سعيد)
في الفتاوى الهندية: ولو حلقت المرأة رأسها فإن فعلت لوجع أصابها لا بأس به وإن فعلت ذلك تشبها بالرجل فهو مكروه كذا في الكبرى .(الفتاوى الهندية، ج ٩ ص ١٧٥، ط. رشيدية)
في البحر الرائق: وإذا حلقت المرأة شعر رأسها فإن كان لوجع أصابها فلا بأس به، و إن حلقت تشبه الرجال فهو مكروه، و إذا وصلت شعرها بشعر غيرها فهو مكروه. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، ج ٨ ص ٤١١، ط. دار إحياء التراث العربي)
في بدائع الصنائع: ولا حلق على المرأة، لما روي عن ابن عباس رضي الله عنه عن النبي ﷺ أنه قال (ليس على النساء حلق، وإنما عليهن تقصير)، وروت عائشة رضي الله عنها أن النبي ﷺ نهى المرأة أن تحلق رأسها، ولأن الحلق في النساء مثلة، ولهذا لم تفعله واحدة من نساء رسول الله ﷺ ولكنها تقصر فتأخذ من أطراف شعرها قدر أنملة، لما روي عن عمر رضي الله عن أنه سئل فقيل له:كم تقصر المرأة؟، فقال: (مثل هذه، وأشار إلى أنملته). (بدائع الصنائع وترتيب الشرائع، ج ٣ ص ١٠٠، ط. دار الكتب العلمية)
فتاوى دار العلوم زكريا میں ہے: عورتوں کے لیے بالوں کا کاٹنا جائز نہیں ہے۔ (فتاوى دار العلوم زكريا، ج ٧ ص ٣٦٧، ط. زمزم)
كتاب النوازل میں ہے: عورت کے لئے بال بڑھانے کی غرض سے پھٹے ہوئے بالوں کو کاٹنے کی اجازت ہے، اِس میں کوئی حرج نہیں۔ (كتاب النوازل، ج ١٥ ص ٥٢١، ط. عزيزية)
فتاوى رحيمة میں ہے: لهذا بالوں کو چھوٹا نہ کیا جائے البتہ اتنے بڑے ہوں کہ سرین سے بھی نیچے ہو جائیں اور عیب دار معلوم ہونے لگیں تو سرین سے نیچے والے حصے کے بالوں کو کاٹا جاسکتا ہے ۔ فقط والله اعلم بالصواب. (فتاوى رحيمة، ج ٣ ص ٧٥١، ط. دار الاشاعت)
فتاوى عثمانية میں ہے: عورتوں کے لیے سر کے بال کٹوانا.
اللہ تعالیٰ نے انسان کو چاہے مرد ہو یا عورت بہترین شکل وصورت میں پیدا فرمایا ہے۔ کسی مرد یا عورت کو اپنی اصلی صورت بگاڑ کر دوسری شکل و صورت اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی اس عطا کردہ نعمت اور تخلیق پر راضی نہ ہونے کے مترادف ہے۔ اسی لیے شریعت میں عورت کے لیے سر کے بال کاٹنا یا کم کرنا نا جائز اور حرام ہے۔ آج کل غیر مسلم عورتوں کی دیکھا دیکھی کچھ مسلمان خواتین بھی اس برے کام کا ارتکاب کر رہی ہیں اور اسے جدید فیشن کا نام دیتی ہیں، حالانکہ اس کے متعلق احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں، کیونکہ اس میں اور مفاسد کے علاوہ مردوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے، جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اس لیے مسلمان خاتون کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین رکھتی ہو، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (فتاوى عثمانية، ج ١٠ ص ١٣١، ط. عصر)
آپ کے مسائل میں ہے: کیا عورت شوہر کی اجازت سے بال کٹو اسکتی ہے؟
سوال .... آج کل فیشن کے طور پر عورتوں میں بال کٹوانے کا فیشن عام ہے، جبکہ سنا ہے کہ عورتوں کے لئے بال کٹوانا اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنا سخت منع ہے۔ اس کے جواب میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورت شوہر کی اجازت سے بال کٹو اسکتی ہے، کیا اسلام میں اس کی کوئی اجازت ہے یا حد مقرر ہے؟
جواب : عورتوں کو مردوں کی مشابہت کرنا حرام ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ جو چیز نا جائز ہو، وہ شوہر کی اجازت کے ساتھ بھی نا جائز ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج ٨ ص ٣٢٧، ط. مكتبة لدهيانوى)