Question:
Answer:
An eyelash lift is to apply a solution to one’s eyelashes in order to lift or curl them upwards. As for eyelash or eyebrow tinting, it is the process of applying a specific dye to one’s lashes or brows to darken and define them semi permanently.
On condition that the mentioned treatments are not exclusive practices of the non-Muslims or fussāq and the solution or dye does not contain any impure ingredients, they will be permissible. It is important to note that using black dye is impermissible. However, some scholars hold the opinion that in cases where white hair results from sickness and not from old age, it would be permissible for one to use black dye to restore the hair to its original condition.
As for the validity of wuḍūʾ, if the tint and solution are water permeable, wuḍūʾ will be valid without removing them. However, if they are non-water permeable, wuḍūʾ will not be valid.
It should be noted that a woman should not beautify herself with the intention of pleasing or presenting herself before non-maḥram men. She may, however, beautify herself within the boundaries of Shari'ah to please her husband.*
Sh. Ahmed Jariwala
29/02/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
وعن ابن عمر رضي اللَّه عنهما قال: قال رسول اللَّه - صلى الله عليه وسلم - (من تشبه بقوم، فهو منهم) (سنن أبي داود، حديث ٤٠٣١)
في الدر المختار مع رد المحتار: (قوله والنامصة إلخ) ذكره في الاختيار أيضا وفي المغرب. النمص: نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب اهـ، وفي التتارخانية عن المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل. (الدر المختار مع رد المحتار، ج ٦ ص ٣٧٣، ط. سعيد)
في البحر الرائق: وفي معراج الدراية الأصح أنه يجزيه والدرن اليابس في الأنف كالخبز الممضوغ والعجين يمنع تمام الاغتسال، وكذا جلد السمك والوسخ والدرن لا يمنع والتراب والطين في الظفر لا يمنع؛ لأن الماء ينفد فيه وما على ظفر الصباغ يمنع وقيل لا يمنع للضرورة قال في المضمرات: وعليه الفتوى والصحيح أنه لا فرق بين القروي والمدني اهـ. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، ج ١ ص ٤٩، ط. دار الكتاب الإسلامي)
في حاشية الطحطاوي: (ولا باطن العينين ولو في الغسل للضرر) قوله: "للضرر" هذه العلة تنتج الحرمة وبها صرح بعضهم وقالوا: لا يجب غسلها من كحل نجس ولو كان أعمى لأنه مضر مطلقا ولأن العين شحم وهو لا يقبل الماء وفي ابن أمير حاج يجب إيصال الماء إلى أهداب العينين وموقيهما اهـ. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، ص ٦٢، ط. قديمي)
في رد المحتار: ومذهبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن كما في الخانية قال النووي: ومذهبنا استحباب خضاب الشيب للرجل والمرأة بصفرة أو حمرة وتحريم خضابه بالسواد على الأصح لقوله عليه الصلاة والسلام (غيروا هذا الشيب واجتنبوا السواد) اهـ. (رد المحتار، ج ٦ ص ٧٥٦، ط. سعيد)
في تبيين الحقائق: والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل كذا في الوجيز وقشرة القرحة إذا ارتفعت ولم يصل الماء إلى ما تحتها لا بأس به في الوضوء والغسل، والفرق بينهما وبين الخضاب أن قشرة القرحة متصلة بالجلد. (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، ج ١ ص ١٣، ط. المطبعة الكبرى الأميرية)
في المحيط البرهاني: وأما الخضاب بالسواد: فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ، ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء، وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه عليه عامة المشايخ. وبنحوه ورد الأثر عن عمر رضي الله عنه، وبعضهم جوزوا ذلك من غير كراهية، روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها، هذه الجملة من شرح (السير الكبير). (المحيط البرهاني، ج ٥ ص ٣٧٥، ط. دار الكتب العلمية)
في فتاوى قاسمية: الجواب وبالله التوفیق: مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی سیاہ خضاب استعمال کرنا مکروہ ہے؛ البتہ شوہر کی خوشنودی کے لئے اس کے کہنے پر سیاہ خضاب استعمال کرنے کی گنجائش ہے، یہی حضرت امام ابو یوسف کا قول ہے، اور ایسے حالات میں حضرت امام یوسف کی رائے کو ترجیح دینا بہتر ہے۔ (فتاوى قاسمية، ج ٢٣ ص ٥٢٠، ط. دار الاشاعت)
في فتاوى محمودية: عورتوں کے لئے لپ اسٹک لگانا کیسا ہے؟
سوال (٩۳۳۸] : عورتوں کو لپ اسٹک لگانا جائز ہے یا نہیں؟ کیا ایک شادی شدہ عورت اپنے شوہر کے حکم کے باعث لپ اسٹک استعمال کر کے موٹرکار میں بیٹھ کر یا پیدل کسی کام سے يایونی تفریحا جاسکتی ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً ومصلياً: جو چیزیں کفار یا فساق کا شعار ہیں ان کو استعمال کرنا درست نہیں ، اسی طرح جو چیزیں مردوں کا شعار ہیں ان کو استعمال کرنا عورتوں کو درست نہیں، مسئولہ چیزوں میں اگر کوئی چیز نجس ہو تب بھی استعمال ممنوع ہوگا۔ اگر کوئی ایسی چیز ہو جس کی وجہ سے فرض وضو وغسل میں کو تا ہی رہتی ہو یعنی پانی پہونچنے سے مانع ہوتو فریضہ طہارت نا تمام رہے گا ، جو چیزیں عرفا شادی شدہ کا شعار ہے اس کو غیر شادی شدہ استعمال کرے تو اس میں ایک طرح کی تلبیس ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم ۔حرره العبد محمود غفرلہ، دار العلوم دیوبند۔ (فتاوى محمودية، ج ١٩ ص ٣٣٠، ط. إدارة الفاروق)
و فيه كذلك: خضاب کا حکم
سوال [۹٣٥٢]: خضاب لگانا کیسا ہے؟ اگر نا جائز ہے تو بعض اکابرین امت ایسا عمل کیوں کرتے ہیں جس سے عوام دلیل پکڑتے ہیں؟
الجواب حامداً ومصلياً :سرخ مہندی کا خضاب بلا کراہت درست ہے، سیاہ خضاب جس سے بالوں کی سیاہی اصلی سیاہی معلوم ہو، مکروہ تحریمی ہے، البتہ مجاہد کو بحالت جہاد ارہاب اعداء کے لئے درست ہے، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بیوی کے سامنے تريین کیلئے بھی گنجائش ہے، ممکن ہے کہ سیاہ خضاب کرنے والے حضرات اس قول کی آڑ لیتے ہوں، یا اور کوئی وجہ ہو، وہ خود ہی اپنے فعل کی وجہ بیان کر سکتے ہیں: قال في الذخيرة: أما الخضاب بالسواد للغزو ليكون أهيب في عين العدو، فهو محمود بالاتفاق، وإن ليزين نفسه للنساء فمكروه، وعليه عامة المشائخ، وبعضهم جوزه بلا كراهة. روى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي، يعجبها أن أتزين لها. شامی: ۲۷۱/۵ ۔ فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم ۔ (فتاوى محمودية، ج ١٩ ص ٤٥٥، ط. إدارة الفاروق)
في امداد الاحکام: سیاہ خضاب لگانا جائز نہیں ہے:
سوال: قابلِ گزارش یہ ہے کہ ایک عالم صاحب نے ایک حدیث لکھ کر روانہ فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے وہ لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے اور ان کو جنت کی خوشبو نصیب نہ ہوگی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ خضاب لگانا بالکل مطابق گناہ شرک ہے،کیوں کہ جنت مشرک کے لیے حرام ہے ، اب رہا یہ کہ کتاب در مختار میں ۲۳۲ باب الخضاب میں صاف لکھا ہوا ہے کہ سیاہ خضاب زینت کے لیے لگانا جائز ہے۔ علاوہ اس کے بعض لوگوں کے ہاں مکروہ لکھا ہے اور بعض کے ہاں مطلق مکروہ نہیں۔
اکثر علماء سے سیاہ خضاب لگانے والے کی نسبت دریافت کیا وہ فرماتے ہیں کہ ایسی حدیث کوئی نظر سے نہیں گزری۔ اور اگر ہے بھی تو وہ ضعیف حدیث ہے؛ اس لیے حضرت والا کے پاس یہ عریضہ روانہ کرکے جواب کا امید وار ہوں۔ سوال صرف سیاہ خضاب کے بارے میں ہے۔
الجواب: أخرج النسائي في سننه (ج١ ص۲۷۷) أخبرنا عبد الرحمن بن عبدالله الجلي عن عبدالله وهو ابن عمرو عن عبدالکریم عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رفعه أنه قال: قوم یخضبون بهذا السواد آخر الزمان کحواصل الحمام لایريحون رائحة الجنة اهـ.
و قد أخرج بعده حدیث أبي قحافة أنه صلی اللّٰه علیه وسلم قال فیه: غیّروا هذا بشيءٍ وجنبوه السواد، رواه الجماعة إلاَّ البخاري والترمذي". (نیل، ج١ ص۱۱٤) وهو حدیث صحیح.
پس یہ حدیث، توضیح ہے کہ سیاہ خضاب سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض لوگ آخر زمانہ میں سیاہ خضاب لگائیں گے ان کو جنت کی خوشبو نہ پہنچے گی اور فتویٰ اسی پر ہے کہ سیاہ خضاب جائز نہیں، مگر یہ کہ جہاد میں دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے لگانا جائز ہے۔
قال في العالمگیریة: أمّا الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة؛ لیکون أهیب في عین العدو فهو محمود منه، اتفق علیه المشائخ، و من فعل ذلك لیزین نفسه للنساء و لیحبب نفسه إلیهنّ مکروه (أي کراهة التحریم؛ للإطلاق)، وعلیه عامة المشائخ". (ج٦ ص۲۳۸)
اور امام ابویوسف ؒ سے اس میں جو رخصت مروی ہے۔ جیسا کہ عالمگیری وشامی میں مذکور ہے۔ وہ روایت ضعیف ہے یا مؤول ہے اس خاص صورت کے ساتھ جب کہ کسی کے بال بوجہ مرض قبل ازوقت سپید ہوجائیں۔ ( کتاب اللباس و الزینہ، ٤ / ٣٤٦، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی) فقط واللہ اعلم.