Question:
Alhamdulillah, we performed Hajj. What we observed there is that even during Ayyam Tashriq (that is 11th & 12th Zilhajj), pilgrims were readily allowed to do stoning of 3 Jamarat BEFORE ZAWAL, right after the Fajr Salah is over. What forms the basis of stoning Jamarat BEFORE ZAWAL on the said days? What is the ruling on it?
Please reply at your earliest.
Answer:
If one is unable to repeat the stoning on the same day after zawal, then he must do qada of it and pay a damm. The qada for the stoning of the 11th should be performed with the stoning on the 12th, while the qada for the stoning of the 12th should be completed with the stoning on the 13th.
It should be noted, however, that the opportunity for doing qada of stoning ends at the sunset of the 13th of Zul Hijjah. Consequently, if one fails to do qada before the sunset of the 13th, he no longer has to do qada, but must now only pay the damm.*
Sh. Muaaz Murtaza
27/11/2023
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
في آپ کے مسائل اور ان کا حل: سوال : ۱۲ ذوالحجہ کو اکثر دیکھا گیا کہ لوگ زوال سے پہلے رمی کرنے نکل جاتے ہیں کہ بعد میں رش ہو جائے گا، اس لئے قبل از وقت مار کر نکل جاتے ہیں ۔ پو چھنا یہ ہےکہ کیا عمل درست ہے؟ اور اگر درست نہیں تو جس نے کر یا اس پر کیا تاوان آئے گا۔ اس کا حج درست ہوا یا فاسد؟
جواب: صرف دس ذوالحجہ کی رمی زوال سے پہلے ہے ۱۱، ۱۲ کی زمی زوال کے بعد ہی ہو سکتی ہے، اگر زوال سے پہلے کر لی تو وہ رمی ادا نہیں ہوئی، اس صورت میں دم واجب ہوگا، البتہ تیرہویں تاریخ کی رمی زوال سے پہلے کر کے جانا جائز ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل۔ ج۵۔ ص۳۷۰۔ ط لدہیانوی).
في الفتاوى العالمكيرية: والكلام في الرمي في مواضع الأول : في أوقات الرمي وله أوقات ثلاثة يوم النحر وثلاثة من أيام التشريق أولها يوم النحر ووقت الرمي فيه ثلاثة أنواع مكروه ومسنون ومباح فما بعد طلوع الفجر إلى وقت الطلوع مكروه وما بعد طلوع الشمس إلى زوالها وقت مسنون وما بعد زوال الشمس إلى غروب الشمس وقت مباح والليل وقت مكروه كذا في محيط السرخسي، ولو رمى قبل طلوع الفجر لم يصح اتفاقاً كذا في البحر الرائق، وأما وقت الرمي في اليوم الثاني والثالث فهو ما بعد الزوال إلى طلوع الشمس من الغد حتى لا يجوز الرمي فيهما قبل الزوال إلا أن ما بعد الزوال إلى غروب الشمس وقت مسنون وما بعد الغروب إلى طلوع الفجر وقت مكروه هكذا روي في ظاهر الرواية، وأما وقته في اليوم الرابع فعند أبي حنيفة رحمه الله تعالى من طلوع الفجر إلى غروب الشمس إلا أن ما قبل الزوال وقت مكروه وما بعده مسنون كذا في محيط السرخسي. (الفتاوى العالمكيرية. ج١. ص٢٥٧. ط قديمي).
في معلم الحجاج: مسئلہ: گیارہویں بارہویں کورمی کا وقت زوال کے وقت سے شروع ہوتا ہے اس سے پہلے رمی جائز نہیں اور زوال سے غروب آفتاب تک مسنون ہے اور غروب سے صبح صادق تک وقت مکروہ ہے۔ اگر گیارہویں کو رمی نہیں کی اور بارہویں کی صبح ہوگئی تو گیارہویں کی رمی فوت ہوگئی اور اس کا وقت نکل گیا۔ اس کو بارہویں کی رمی کے ساتھ قضا کر لے۔ اسی طرح بارہویں کی رمی اگر تیرہویں کی صبح تک نہ کی تو اس کا بھی وقت نکل گیا اور قضا واجب ہو گئی ۔
مسئلہ: اگر کسی روز کی رمی اس کے وقت معین میں نہ ہو سکی تو قضا واجب ہوگی اور دم بھی واجب ہوگا ۔ اسی طرح اگر بالکل کسی روز بھی رمی نہیں کی تو اور رمی کا وقت نکل گیا تب بھی ایک ہی دم واجب ہوگا۔
مسئلہ : رمی کی قضا کا وقت تیرہویں کے غروب تک ہے۔ غروب کے بعد رمی کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور قضا کا وقت نہیں رہتا صرف دم واجب ہوتا ہے۔ (معلم الحجاج. ص١٧٠. ط گابا سن).