Question:
Answer:
Sh. Anas Ahsan
28/03/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
وعلى الرجل أن ينفق على أبويه وأجداده وجداته إذا كانوا فقراء وإن خالفوه في دينه. (مختصر القدوري: 2/317 ط.دار الكتب العلمية)
وَعَن أبي حرَّة الرقاشِي عَن عَمه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَلا تَظْلِمُوا أَلَا لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَان وَالدَّارَقُطْنِيّ فِي الْمُجْتَبى (مشكات المصابيح - 2946)
قال: ويجبر الولد الموسر على نفقة الوالدين المعسرين، مسلمين كانا أو ذميين قدرا على الكسب أو لم يقدرا ... اليسار مقدر بالنصاب فيما روي عن أبي يوسف رحمه الله تعالى، وعليه الفتوى. والنصاب نصاب حرمان الصدقة، هكذا في الهداية. وإذا اخلطت الذكور والإناث فنفقة الأبوين عليهما على السوية في ظاهر الرواية، وبه أخذ الفقيه أبو الليث، و به يفتي. كذا في الوجيز للكردري ... قال الشيخ الإمام شمس الأئمة: قال مشايخنا رحمهم الله تعالى : إنما تكون النفقة عليهما على السواء إذا تفاوتا في اليسار تفاوتاً يسيراً، وأما إذا تفاوت تفاوتاً فاحشاً فيجب أن يتفاوتا في قدر النفقة ، كذا في
الذخيرة. (الفتاوى الهندية – فصل في نفقة ذوي الأرحام: 1/586 ط.قديمي كتب خانه)
جب ماں فقیر ہے از پوری کی طرح ماں کا خرچ بھی زید پر واجب ہے ليكن دونوں کا خرچه برداشت نہ ہو سکے تو قرضہ لے کر دونوں کے ساتھ خرچوشیں رواداری کا معاملہ کرنا ہوگا۔ قال في الهداية باب النفقة - ومن أعسر بنفقة امرأته لم يفرق بينهما و يقال لها اسعديني عليه. (فتاوى قاسمية: 22/610 ط.دار الإشاعت)
جو زیور آپ کی نانی نے آپ کی والدہ کو دیا ہے وہ والدہ کی ذاتی ملکیت ہے، آپ کے والد صاحب کے لیے اسے زبردستی ان سے لینا قطعا جائز نہیں ہے۔ (فتاوى قاسمية: 22/39 ط.دار الإشاعت)
سؤال: ایک شخص بوڑھا محتاج ہے ، اس کا ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی ہے ، اور دونوں صاحب حیثیت مالدار ہیں، تو اس بوڑھے شخص کا نفقہ اور خدمت دونوں پر برابر ہے یا صرف بیٹے پر ہے؟ اور اگر یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک خود محتاج ہے تو پھر کیا حکم ہے؟
جواب: بصورت مسئولہ اولاد کے مالدار اور صاحب حیثیت ہونے کی وجہ سے بوڑھے والدہ کا نفقہ اور خدمت دونوں پر یکساں ہیں، ہاں اولاد و خود محتاج ہوں تو ان پر نفقہ لازم نہیں ہے، اور مالدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نصاب کا مالک ہو جس سے صدقہ لینا حرام ہوتا ہے، نیز اگر دونوں کے درمیان مالداری کا تفاوت فاحش ہو تو پھر تفاوت کے موافق نفقہ لازم ہوگا. (فتاوى دار العلوم زكريا – نفقه اور سكنى كا بيان: 4/381 ط.زمزم)