Question:
Answer:
Upon birth, the child will be attributed to the mother’s husband, regardless of whether she has committed zina with another man. Therefore, the husband will be the shari’ father of the child. If, however, the father refuses to accept this to be his child and takes the matter to an Islamic court, the process of liān will be initiated, upon the successful completion of which the judge will separate the husband and wife and will attribute the nasab of the child to the mother only. This means that under no circumstances will the nasab of the child in question be attributed to the man with whom the mother committed zina. *
Sh. Anas Ahsan
29/04/2024
Checked and approved by:
Mufti Faizal Riza
Mufti Anas Qazi
Darul Ifta Australia
www.fatwa.org.au
*References:
ما رواه ابن مسعود رضي الله عنه قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي الذنب عند الله أكبر ؟ قال: " أن تجعل لله نداً وهو خلقك ". قلت : ثم أي ؟ قال: " أن تقتل ولدك خشية أن يطعم معك " قلت: ثم أي ؟ قال: " أن تزاني بحليلة جارك. (متفق عليه)
ومن ذلك قوله صلى الله عليه وسلم: إذا زنى العبد خرج منه الإيمان فكان على رأسه كالظلة، فإذا أقلع رجع إليه. ) رواه أبو داود والترمذي)
ومنها : ثبوت النسب وإن كان ذلك حكم الدخول حقيقة، لكن سببه الظاهر هو النكاح . لكون الدخول أمراً باطناً، فيقام النكاح مقامه في إثبات النسب، ولهذا قال النبي ﷺ : )الوَلَدُ الْفِرَاشِ وَالْعَاهِرِ الْحَجَرِ ) ، وكذا لو تزوج المشرقي بمغربية، فجاءت بولد يثبت النسب، وإن لم يوجد الدخول حقيقة لوجود سببه وهو النكاح . (بدائع الصنائع – كتاب النكاح، باب ثبوت النسب: 3/607 ط. دار الكتب العلمية)
قال أصحابنا لثبوت النسب ثلاث مراتب : الأولى: النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير دعوة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفى اللعان فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط. (فتاوى هندية – باب في ثبوت النسب: 1/560 ط.قديمي كتب خانه)
سؤال: زید نے ایک عورت سے نکاح کیا اسی دوران میں بکر کا اس عورت سے ناجائز تعلق ہو گیا ۔ عورت کی ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ بعد ازاں اس عورت کو زید نے طلاق دے دی۔ لڑکی کی شکل و شباہت بکر سے ملتی جلتی ہے۔ عورت اور بکر بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بکر کی اولاد ہے ... جواب: جب کہ وہ لڑ کی اس زمانے میں پیدا ہوئی کہ اس کی ماں زید کے نکاح میں تھی ، تو وہ لڑکی شرعاً زید کی لڑ کی قرار پائے گی اور ثابت النسب ہوگی۔ اگر زید اس لڑکی کے متعلق اپنی لڑکی ہونے سے انکار کرے جب بھی وہ زید ہی کی طرف شرعاً منسوب ہوگی اور تا وقتیکہ با قاعدہ لعان نہ ہو، اس وقت تک اس کا نسب زید ہی سے ثابت ہو گا ۔ اور شکل و شباہت بکر کے ساتھ ملنے سے حکم نہیں بدلے گا... (كفاية المفتي - باب ثبوت النسب: 9/50 ط. إدارة الفاروق)
اگر وقت نکاح سے چھ ماہ پورے ہونے کے بعد بچی پیدا ہوئی تو یہ شوہر سے ثابت النسب ہے، اس کو حرامی کہنا جائز نہیں، البتہ نکاح پر چھ ماہ گزرنے سے پہلے پیدا ہوئی تو ولد الز نا ہوگی، شوہر سے نسب ثابت نہ ہوگا. (أحسن الفتاوى: 5/456 ط. إيج إيم سعيد)